کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 240
پوچھا: کس سے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: امّ کلثوم بنت ابی بکرسے۔ عمرو نے کہا: آپ اس بچی سے کیسے شادی کریں گے، وہ صبح وشام آپ کو اپنے باپ کی جدائی کا غم سناتی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: کیا عائشہ رضی اللہ عنہا نے تمہیں ایسا کہنے پر مامور کیا تھا؟ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں۔ پھر آپ نے ان سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دیا، اور ان سے طلحہ بن عبید اللہ نے شادی کرلی۔ [1] لڑکیوں کی یہ دلی خواہش اور تمنا ہوتی ہے کہ اپنی قوم کے عظیم فرد سے اس کی شادی ہو اور یہاں امیر المومنین خود پیغام نکاح لے کر آگے بڑھتے ہیں، نکاح کا حکم نہیں دیتے نہ اس پر مجبور کرتے ہیں، اور لڑکی پوری آزادی و پختہ فیصلہ کے ساتھ امیر المومنین رضی اللہ عنہ سے شادی کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ جب امیر المومنین رضی اللہ عنہ کو انکار کی خبر ملتی ہے تو آپ بغیر کسی خفگی وناراضگی کے نیز بغیر ڈرائے دھمکائے اس لڑکی سے شادی کا ارادہ ترک کردیتے ہیں۔ محض اس لیے کہ آپ کو معلوم ہے کہ اسلام کسی لڑکی کو اس کے مزاج کے خلاف شادی کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ دوسری طرف عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بھی انکار کی خبر پہنچانے میں نہایت دانائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ جب کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی دقت تعبیر کے باوجود انکار کا اصل مصدر جاننے میں خوب رمز شناس ٹھہرے۔ [2] اگر لڑکیوں کو کوئی شادی کا پیغام دیتا تو قبول و انکار سے متعلق آپ لڑکیوں ہی کی طرف داری کرتے تھے اور کہتے: ’’اپنی لڑکیوں کو قبیح آدمی سے شادی کرنے پر مجبور نہ کرو، کیونکہ وہ بھی وہی پسند کرتی ہیں جو تم پسند کرتے ہو۔‘‘ [3] ایک آدمی عام شاہراہ پر عورت سے بات کرتا ہے: ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ راستے سے گزر رہے تھے، آپ نے ایک آدمی کو عورت سے بات کرتے ہوئے دیکھا تو اسے ایک درّہ لگایا۔ اس آدمی نے کہا: اے امیر المومنین یہ میری بیوی ہے۔ آپ نے اس سے کہا: تم اپنی بیوی کے ساتھ راستے میں کیوں کھڑے ہو، کیا مسلمانوں کو اپنی عدم موجودگی کی خبر دیتے ہو؟ اس آدمی نے کہا: اے امیر المومنین! ہم ابھی مدینہ پہنچے ہیں، اور مشورہ کررہے ہیں کہ کہاں قیام کیا جائے۔ آپ نے اس کے ہاتھ میں درّہ تھما دیا اور کہا: اے اللہ کے بندے مجھ سے بدلہ لے لو۔ اس نے کہا: نہیں اے امیر المومنین، آپ اسے (درّہ کو) پکڑئیے۔ آپ نے فرمایا: اس کو تم پکڑو، اور بدلہ لے لو، تیسری مرتبہ اس آدمی نے کہا: میں اللہ کے لیے آپ کو معاف کردیتا ہوں۔ آپ نے کہا: اللہ کے پاس تمہارا اس میں حق ہے۔ [4]
[1] صحیح البخاری، کتاب المغازی، حدیث نمبر: ۳۹۲۸۔ [2] أصحاب الرسول، محمود المصری: ۱/ ۱۷۷ [3] الفاروق عمر، الشرقاوی، ص: ۲۱۰، ۲۱۱