کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 238
یہ وہ خاتون ہیں جن کی شکایت اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر سنی ہے: ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ مسجد سے نکلے، آپ کے ساتھ جارود العبدی بھی تھے، راستے میں ایک عورت مل گئی، عمر رضی اللہ عنہ نے اسے سلام کیا ، اس نے سلام کا جواب دیا اور کہا: اے عمر! میں تمہیں اس وقت سے جانتی ہوں جب تمہیں عکاظ کے بازار میں عمیر کہہ کر پکارا جاتا تھا اور تم اپنے ڈنڈے سے دوسرے بچوں کو چھیڑتے تھے، یہاں تک کہ تمہیں عمر کہا جانے لگا۔ اور زیادہ دن نہیں گزرے کہ امیر المومنین کہے جانے لگے ہو، لہٰذا رعایا کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور یاد رکھو کہ جو شخص وعید الٰہی سے ڈرتا ہے، دور رہنے والا بھی اس کے قریب آجاتا ہے، اور جو شخص موت سے خوف کھاتا ہے وہ دنیا سے جانے سے بھی گھبراتا ہے۔ جارود نے کہا: اے خاتون! آپ نے امیر المومنین کو بہت کچھ کہہ دیا (اب بس کریں۔) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہنے دو، کیا تم انہیں پہچانتے نہیں ہو؟ یہ خولہ بنت ثعلبہ ہیں جن کی بات کو اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر سنا تھا، تو عمر، ان کی بات کو سننے کا زیادہ حق دار ہے۔ [1] اور ایک روایت میں ہے کہ ’’اللہ کی قسم! اگر وہ رات تک کھڑی رہتیں تو میں صرف نماز کے لیے ان کو چھوڑتا، پھر لوٹ کر ان کے پاس آجاتا۔‘‘ [2] اور ایک روایت میں ہے کہ ’’یہ وہی خولہ ہیں جن کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا (المجادلۃ:۱) [3] ’’یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں بات کررہی تھی۔‘‘ مرحبا ہے قریبی خاندان کو: زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بازار گیا، آپ سے ایک نوجوان عورت آکر ملی اور کہا: اے امیر المومنین! میرا شوہر فوت ہو گیا ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، اللہ کی قسم انہیں بکری کے پائے تک نہیں ملتے، نہ کھیتیاں اور دودھ کے جانور ہیں۔ میں ڈرتی ہوں کہ کہیں بھوک کی وجہ سے موت کا لقمہ نہ بن جائیں، میں خفاف بن ایماء غفاری کی بیٹی ہوں۔ [4] میرے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صلح حدیبیہ میں شریک تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ وہیں کھڑے رہے، ایک قدم آگے نہ بڑھایا اور کہا: مرحبا ہے میرے قریبی خاندان کو۔ پھر آپ گھر میں بندھے ہوئے ایک طاقتور اونٹ کے پاس گئے اور اس پر دو بوری غلہ لادا، نیز بوریوں کے بیچ میں کچھ رقم اور کپڑے ڈال دیے، پھر اسے لائے اور عورت کو اونٹ کی نکیل پکڑا دی، اور کہا: اسے لے جاؤ، یہ غلہ ختم نہ ہوگا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر کشادگی کردے گا۔ ایک آدمی نے کہا: اے امیر
[1] صحیح التوثیق فی سیرۃ وحیاۃ الفاروق عمر بن الخطاب، ص: ۳۷۳ [2] أخبار عمر، ص: ۳۴۴۔ محض الصواب: ۱/ ۳۵۶۔ روایت معضل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔