کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 234
سب تم جانتے ہو؟ ان دونوں نے کہا: ہاں، ہم جانتے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو وفات دے دی، پھر ابوبکر خلیفہ ہوئے تو انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ اللہ کی قسم! ابوبکر نے اسے اپنے قبضہ میں رکھا اور اس میں سے جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے انہوں نے بھی وہی کیا، اللہ خوب جانتا ہے کہ ابوبکر اپنے عمل میں سچے، نیک ہدایت یاب اور حق کے تابع تھے۔ پھر اللہ نے ابوبکر کو بھی وفات دے دی، اور میں ابوبکر کا خلیفہ ہوا، اپنی مدت خلافت میں دو سال تک میں نے اسے اپنے قبضہ میں رکھا اور اس میں وہی کام کرتا رہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر نے کیا تھا، اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا ہوں، ہدایت پر ہوں اور حق کے تابع ہوں، پھر تم دونوں میرے پاس اپنی بات لے کر آئے اور تم دونوں کا مطالبہ اور معاملہ ایک ہی تھا۔ اے عباس! تم مجھ سے اپنے بھتیجے کا حق مانگنے آئے اور یہ یعنی علی رضی اللہ عنہ اپنے خسر کے مال سے بیوی کا حصہ لینے آئے اور میں نے تم دونوں کو بتا دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لَا نُوْرِثُ مَا تَرَکَنَا صَدَقَۃٌ۔)) ’’ہم (انبیاء) اپنے مال کا کسی کو وارث نہیں بناتے، ہم جو کچھ بھی چھوڑ کر جاتے ہیں صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ میری یہ رائے ہوئی کہ پھر یہ مال میں تم دونوں کے حوالے کردوں، میں نے تم سے کہا کہ اگر تم دونوں کہو تو اسے تمہیں دے دوں لیکن اس شرط پر کہ تم دونوں اللہ سے یہ عہد وپیمان کرو کہ اس میں ویسا ہی تصرف کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور پھر میں نے اپنے دور خلافت میں کیا ہے۔ تم دونوں نے کہا کہ وہ مال ہمیں دے دو تو تمہارے مطالبہ پر اسے تمہیں دے دیا۔ میں آپ لوگوں سے حلفیہ پوچھتا ہوں کہ کیا میں نے وہ مال ان دونوں کو دے دیا تھا؟ اس جماعت نے کہا: ہاں، پھر آپ علی اور عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور حلفیہ اقرار کروایا کہ بتاؤ وہ مال میں نے تم دونوں کو دیا نہیں تھا؟ ان دونوں نے کہا: ہاں۔ آپ نے پوچھا تو کیا پھر مجھ سے اس کے علاوہ فیصلہ کرانا چاہتے ہو، اگر تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوسکتا تو مجھ کو پھر واپس دے دو، میں تم دونوں کی طرف سے اس کے لیے ضامن ہوں۔ [1] سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے فرزند عبداللہ رضی اللہ عنہ کا احترام: ’’عام الرمادۃ‘‘ کے موقع پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم چچا یعنی عباس بن عبدالمطلب کو استسقاء کی نماز پڑھانے کا حکم دے کر پوری امت کے سامنے آپ کی فضیلت، احترام اور قدر ومنزلت کو ظاہر کردیا۔ (اس کی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں آرہی ہے۔) پچھلے مباحث میں یہ بات گزر چکی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ کے لیے قسم کھائی تھی کہ ’’ان کا اسلام لانا مجھے میرے باپ کے اسلام لانے سے … اگر وہ اسلام لاتے … زیادہ محبوب ہے۔ اس لیے کہ عباس کا مسلمان ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب تھا۔‘‘ [2]