کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 227
ان کو ڈانٹا اور کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ سے ملوں تو ایک خائن حاکم بن کر ملوں اور اس کے بعد آپ نے اپنی مخصوص رقم سے دس ہزار درہم ان کو دیے۔ [1] یہ ہیں فاروقی زندگی کے اعلیٰ کردار کی چند مثالیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ عوام ورعایا کے مال سے کس قدر بے نیاز تھے اور اپنے رشتہ داروں نیز گھر والوں کو اپنی حکومت ومنصب کے حوالے سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانے سے کس قدر سختی سے منع کرتے تھے۔ اللہ کا مال حکام وامراء ہی کی صوابدید پر قائم رہتا ہے۔ اور ایک بات فطری اصولوں میں سے ہے نیز مشاہدات وواقعات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں، وہ یہ کہ جب حاکم وقت ملکی خزانے میں دست درازی کرنے لگتا ہے تو عوام میں خیانت اور چوری عام ہونے لگتی ہے، بیت المال یا ملکی خزانے یہاں تک کہ دیگر ترقیاتی اداروں میں بد نظمی پیدا ہو جاتیہے۔ چھپ چھپ کر خیانت کرنے والا کھلے عام خیانت کرنے لگتا ہے، گویا سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، جب کہ فطری عدل وانصاف کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر انسان قناعت شعار ہو، دوسروں کے مال پر للچائی نگاہ نہ رکھتا ہو، عوام کے حقوق کی پوری رعایت کرتا ہو، تو لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، اس کے ساتھ رہنے کی خواہش کرتے ہیں، خاص طور سے اگر مذکورہ اوصاف کسی حاکم میں ہوں تو عوام اس کے حق میں مہربان اور اطاعت گزار ہوتی ہے، اور اس کی نگاہوں میں اپنے سے زیادہ حاکم وقت معزز ہوتا ہے۔ [2] آپ کی عائلی ومعاشرتی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد منصب خلافت کے باب میں نقوش فاروقی میں جو چیز سب سے اہم شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ اپنی ذاتی اور عوامی زندگی میں خیر وبھلائی کا کامل نمونہ تھے، یہاں تک کہ آپ کی زندگی سے متاثر ہو کر علی بن ابی طالبؓ نے کہا: ’’تو پاک دامن رہا اس لیے تیری رعایا بھی پاک دامن رہی، اگر تو حکومت کا مال کھاتا تو رعایا بھی کھاتی۔‘‘ آپ جس بات کا دوسروں کو حکم دیتے تھے اس سلسلہ میں اپنے حکام وعمال کی نگرانی سے کہیں زیادہ نگرانی اپنی اور اپنے گھر والوں کی کرتے تھے، اور سب سے پہلے اسے اپنے اوپر نافذ کرتے تھے۔ چنانچہ لوگوں کے دلوں میں آپ کا رعب پیدا کرنے اور ہر خاص وعام کی طرف سے آپ کی تصدیق کرنے میں مذکورہ کردار کا زبردست اثر تھا۔ [3] یہ ہیں خلیفہ راشد عمر بن خطاب، جو دین اسلام کی اعلیٰ ترین چوٹی پر فائز تھے۔ اسلام نے آپ کی تربیت کی تھی، ایمان باللہ نے آپ کے دل کو محبت الٰہی سے بھر دیا تھا وہ بڑا گہرا ایمان تھا، اس سے آئندہ نسلوں کے لیے ایمانی نمونہ تیار ہوا اور آج بھی اللہ پر کامل ایمان اور اسلامی اصولوں پر زندگی کی تربیت حاکم وقت کو
[1] الخلفاء الراشدون، د/ عبدالوہاب نجار، ص: ۲۴۵ [2] البخاری: ۴۰۷۱۔ فتح الباری: ۷/ ۴۲۴، ۶/ ۹۳۔ الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۲۷۳ [3] الزہد، إمام أحمد بن حنبل، ص: ۱۷۔ فرائد الکلام، ص: ۱۳۹