کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 225
کی احتیاط اللہ کے ان نیکوکار بندوں ہی میں دیکھنے کو ملتی ہے جو بھلائیوں کی طرف سبقت کرنے والے اور حلال وحرام نیز حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔ جب کہ وہ لوگ جو اپنی ذات کی حفاظت سے غافل رہتے ہیں ان کے یہاں ان باتوں کی قطعاً پروا نہیں ہوتی۔ [1] ۸: بیوی کو عطا کیے گئے ہدیہ کی مخالفت: ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی عاتکہ بنت زید کو تقریباً ڈیڑھ گز کی چٹائی بطور ہدیہ بھیجی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جب تحفہ ان کے پاس دیکھا تو پوچھا: یہ تم کو کہاں سے ملا ہے؟ انہوں نے کہا: ابوموسیٰ اشعری نے مجھے ہدیہ دیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے وہ چٹائی ہاتھ میں لی اور ان کے سر پر زور سے ماری، یہاں تک کہ ان کا سر چکرا گیا اور کہا: ابوموسیٰ کو میرے پاس لاؤ اور پیدل چلا کر لاؤ۔ چنانچہ وہ لائے گئے، وہ تھک چکے تھے اور کہہ رہے تھے: اے امیر المومنین! میرے بارے میں جلدی نہ کیجیے، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہماری عورتوں کو تم نے ہدیہ کیوں دیا؟ پھر آپ نے چٹائی ان کے سر پر بھی زور سے دے ماری اور کہا: اسے لے جاؤ، ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ [2] عمر رضی اللہ عنہ ملکی معاملات میں عورتوں کو دخل اندازی سے سختی سے منع کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ اپنے ایک عامل کو معزول کرنے کا فرمان تحریر کررہے تھے، دوران تحریر آپ کی بیوی نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا: اے امیر المومنین آپ اس عامل پر کیوں اتنا سخت ناراض ہیں؟ آپ نے فرمایا: اے اللہ کی دشمن، تجھے اس سے کیا مطلب؟ تم دل بہلانے کا ایک کھلونا ہو جسے کھیل کر پھر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: اپنے تکلے پر چلی جاؤ اور جس چیز کا تم سے تعلق نہیں اس میں دخل اندازی مت کرو۔ [3] ۹: ملکۂ روم کی طرف سے آپ کی بیوی امّ کلثوم کو ہدیہ: استاد خضری نے اپنی تیار کردہ لکچر بک میں لکھا ہے کہ جب بادشاہ نے جنگ بندی کا اعلان کردیا اور عمر رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھا اور آپ کی قربت چاہی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے قاصدوں کو ڈاک دے کر بادشاہ روم کے پاس بھیجا، اس ڈاک کے ساتھ امّ کلثوم بنت علی بن ابی طالب نے ملکۂ روم کو خوشبو، پانی پینے کے برتن اور کچھ زیورات کا ہدیہ بھی دیا، چنانچہ بادشاہ روم نے وہ عطیات اپنی ملکہ کو دے دیے ملکہ روم یعنی قیصر کی بیوی نے اپنی ہم نشین عورتوں کو اکٹھا کیا اور ان سے یہ کہا کہ یہ حاکم عرب کی بیوی اور ان کے نبی کی نواسی کا ہدیہ ہے، انہیں ہدیہ دکھایا، پھر اس نے بھی امّ کلثوم کو ایک خط لکھا اور قیمتی ہار بطور ہدیہ بھیجا، جب وہ قاصد بادشاہ روم کی ڈاک لے کر
[1] الطبقات: ۳/ ۲۷۷۔ اس کی سند صحیح ہے۔ محض الصواب: ۲/ ۴۹۱ [2] عصر الخلافۃ الراشدۃ، العمری، ص: ۲۳۶۔ یہ اثر حسن ہے۔ [3] التاریخ الاسلامی: ۱۹/ ۴۰ [4] الزہد، امام أحمد بن حنبل، ص:۱۱۔ بحوالہ التاریخ الإسلامی: ۱۹/ ۳۰