کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 222
کا ہے۔ آپ کہنے لگے: اے عبداللہ بن عمر! کیا خوب، کیا خوب …، امیر المومنین کے بیٹے! یہ اونٹ کیسا ہے؟ عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے بتایا کہ اس اونٹ کو میں نے خریدا تھا اور پھر رفاہی چراگاہ میں چھوڑ دیا تھا، میں بھی وہی چاہتا تھا جو تمام مسلمان چاہتے ہیں۔ (یعنی اونٹ فربہ اور تروتازہ ہوجائے) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ کہتے رہے ہوں گے امیر المومنین کے بیٹے کے اونٹ کو خوب چراؤ، امیر المومنین کے بیٹے کے اونٹ کو اچھی طرح پلاؤ، اے عبداللہ بن عمر اپنے اونٹ کی اصل قیمت لے لو اور منافع مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کروا دو۔ [1] ۲: جنگ جلولاء کے موقع پر مال فے خریدنے پر عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا محاسبہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ فارس کے معرکوں میں سے ایک معرکہ جو ’’جلولاء‘‘ میں پیش آیا تھا اس میں حاضر ہوا اور چالیس ہزار درہم میں مالِ غنیمت خریدا اور جب وہاں سے لوٹ کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے کہا: اگر میں جہنم میں ڈالا جاؤں اور تم سے کہا جائے کہ اس کے عذاب سے بچانے کے لیے فدیہ دو، تو کیا تم فدیہ دو گے؟ تمہارا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم کوئی بھی چیز جو آپ کے لیے باعث تکلیف ہو میں اس سے بچانے کے لیے سب کچھ فدیہ دینے کو تیار ہوں۔ آپ نے فرمایا: گویا کہ میں لوگوں کو دیکھ رہا تھا جب وہ خرید و فروخت کررہے تھے اور کہہ رہے تھے: عبداللہ بن عمر صحابی رسول ہیں، امیر المومنین کے بیٹے ہیں، ان کے چہیتے ہیں، اور تم حقیقت میں ایسے ہو بھی۔ پس تمہیں مہنگا دینے کے بجائے کم داموں میں دینا انہیں زیادہ محبوب رہا۔ میں تقسیم کرنے والا ذمہ دار ہوں اور ایک قریشی تاجر جتنا نفع پاتا ہے میں تم کو اس سے زیادہ دیتا ہوں۔ تمہارے لیے ایک درہم پر ایک درہم (یعنی دوگنا) نفع ہے۔ ابن عمر کا کہنا ہے کہ پھر آپ نے تاجروں کو بلایا اور انہوں نے اس کو چار لاکھ درہم میں خرید لیا، عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے مجھے صرف اسّی ہزار (۸۰۰۰) درہم دئیے اور بقیہ دراہم سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دئیے تاکہ وہ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کردیں۔ [2] ۳: قرابت داری نفع خوري کا سبب نہیں بن سکتی: اسلم سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے دونوں صاحبزادے یعنی عبداللہ اور عبید اللہ ایک لشکر کے ساتھ عراق کی مہم پر نکلے، جب وہ دونوں لوٹے تو بصرہ کے امیر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرتے ہوئے لوٹے۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو خوش آمدید کہا اور استقبال کیا اور کہا: اگر میں کسی طرح سے تم دونوں کو کوئی فائدہ پہنچا سکا تو ضرور فائدہ پہنچاؤں گا۔ پھر کہنے لگے: ہاں ٹھیک ہے، یہاں میرے پاس صدقہ کی کچھ رقم ہے اور میں اسے امیر المومنین کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں، میں اسے تم دونوں کو بطور قرض دے رہا ہوں تم اس سے عراق سے کچھ سامان خرید لو اور اسے لے جا کر مدینہ میں فروخت کردینا، پھر قرض کی اصل رقم امیر المومنین کو دے دینا اور
[1] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، د/ محمد قلعجی، ص: ۱۴۶ [2] محض الصواب: ۳/ ۸۹۳