کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 220
اللہ کی قسم ! جب حر بن قیس نے آیت کی تلاوت کی تو عمر بن خطاب فوراً رک گئے۔ یقینا وہ اللہ کی کتاب کے بہت پابند تھے۔ [1]چنانچہ جب آپ نے آیت کریمہ سنی تو آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور جس آدمی نے آپ کو آپ کے اخلاق کریمہ میں بخیلی اور دین داری میں ناانصافی کی تہمت لگا کر آپ کی شان میں گستاخی کی تھی، آپ نے اسے معاف کردیا۔ یہ اس قرآنی تعلیم کی تاثیر تھی جس کا عمر رضی اللہ عنہ اہتمام کرتے تھے اور اس کی حفاظت میں کھڑے ہوجاتے تھے، کون ہے ہم میں جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھتا ہو؟ خاص طور سے جب غصہ کا سبب کوئی ایسا عمل ہو جس پر اکثر لوگ ناراض ہی ہوجاتے ہوں؟ ہم ان تعلیمات سے کب آراستہ ہوں گے تاکہ قرآن کا عملی نمونہ بن سکیں؟ اور اللہ تعالیٰ کی کتاب ہدایت کے مطابق ہمارا ہر عمل ہو؟ نیز کب ہمارے اخلاق قرآنی ہوں گے؟ [2] ملک شام کی فتح کے موقع پر جابیہ نامی جگہ پر جب عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا تو مال غنیمت اور اس کی تقسیم وغیرہ سے متعلق کچھ باتیں کہیں اور یہ بھی کہا: ’’ میں آپ لوگوں کو خالد بن ولید کی معزولی کا عذر بتانا چاہتا ہوں، میں نے ان سے کہا تھا کہ اس مال کو کمزور ونادار مہاجرین میں تقسیم کردیں، لیکن انہوں نے طاقت ور، مال دار، باحیثیت اور چرب زبان لوگوں کو دے دیا، اس لیے میں نے ان کو معزول کرکے ابوعبیدہ کو امیر بنا دیا۔‘‘ ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ مخزومی کھڑے ہوئے اور کہا: اے عمر! آپ کی معذرت قابل قبول نہیں ہے۔ آپ نے ایسے عامل کو برطرف کیا ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامل بنایا تھا اور اس تلوار کو نیام میں ڈالا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے نیام کیا تھا، اس منصب کو چھینا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فائز کیا تھا، آپ نے قطع رحمی کی ہے اور اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ حاسدانہ رویہ اپنایا ہے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تم ان کے قریبی رشتہ دار ہو، ابھی نو عمر ہو، اس لیے اپنے چچا زاد بھائی کے لیے غصے ہورہے ہو ۔‘‘[3] یہ ہیں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مثالی اوصافِ حمیدہ، کہ محض توحید خالص، ایمان باللہ اور فکر آخرت کی وجہ سے آپ ان صفات سے متصف رہے۔ علماء اور محققین نے آپ کے ذاتی اوصاف پر تفصیلی بحث کی ہے، جن میں چند اہم اوصاف یہ ہیں کہ آپ مذہبی غیرت، بہادری، پختہ ایمان، عدل پروری، علم دوستی، فنی مہارت، طویل تجربہ، رعب ودبدبہ، شخصی قوت، فراست وذہانت، دور اندیشی، احسان وکرم، قدوۂ حسنہ، رحمت وشفقت، عزیمت، دین کے لیے سختی اور ورع وتقویٰ جیسی اعلیٰ صفات کے مالک تھے۔ محققین وسیرت نگاروں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی قائدانہ صلاحیتوں اور خوبیوں کو ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ اپنے اوپر تنقید وتبصرہ کی قوت برداشت، لوگوں کو
[1] شہید المحراب، ص: ۱۴۴ [2] شہید المحراب، ص: ۱۴۴، ۱۴۵ [3] آپ صحابی ہیں ، بنو فزارہ کے وفد کے ساتھ اسلام لائے، آپ کی نسبت اس طرح ہے: حر بن قیس فزاری۔