کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 216
روکتے ہیں۔ [1] عبدالرحمن بن نجیح کا بیان ہے کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، آپ کے پاس ایک اونٹنی تھی، آپ اسے خود دوہتے تھے۔ ایک دن آپ کے غلام نے آپ کو دودھ پلایا، آپ نے اسے ناپسند کیا اور کہا: تیرا برا ہو! یہ دودھ تو کہاں سے لایا؟ اس نے کہا: اے امیر المومنین! اونٹنی کا بچہ چھوٹ گیا تھا اور اس نے دودھ پی لیا تھا۔ تو میں نے صدقہ کی اونٹنی سے آپ کے لیے دودھ دوھ لیا۔ آپ نے فرمایا: تیرا برا ہو۔ تو مجھے آگ پلاتا ہے۔ پھر آپ نے اس دودھ کے بارے میں بعض لوگوں سے اجازت لی، تو لوگوں نے آپ سے کہا اے امیر المومنین دودھ اور اس اونٹنی کا گوشت بھی آپ کے لیے حلال ہے۔ [2] امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ورع کی یہ نادر مثال دیکھئے کہ آپ نے بلاقصد وارادہ اس دودھ کو پیا تھا، لیکن عذابِ الٰہی کا ایسا خوف کہ جب تک بعض بزرگ صحابہ سے جو مسلمانوں کی طرف سے اس ذمہ داری پر مامور تھے اس کے بارے میں اجازت نہ لے لی آپ کے دل کو اطمینان نہ ہوا … یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ذکر آخرت، وہاں کے حساب وکتاب، نعمتوں کے حصول اور بدبختی سے بچنے کا خوف آپ کے رگ وپے میں سرایت کرچکا تھا اور اسی غم میں آپ ڈوبے رہتے تھے اور یہی خوف وغم آپ کی زندگی میں اعلیٰ سلوک وکردار کا اصل محرک تھا۔ [3] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ورع وتقویٰ کے شیدائی تھے۔ یہاں تک کہ جن چیزوں کے لینے میں حق بجانب ہوتے اسے بھی لینے میں کافی احتیاط برتتے تھے۔ ایک دن آپ بیمار ہوئے، لوگوں نے بتایا کہ شہد کو بطور دوا استعمال کیجیے، مفید ہوگا، اتفاق سے اس وقت بیت المال میں شہد موجود تھا جو بعض مفتوحہ ممالک سے آیا ہوا تھا، لیکن معالجین کے مشورہ کے مطابق آپ نے اس وقت تک شہد استعمال نہ کیا جب تک کہ لوگوں کو جمع نہیں کرلیا، پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں سے اجازت مانگی کہ ’’اگر آپ لوگ مجھے اجازت دیں تو شہد استعمال کرلوں، ورنہ وہ میرے لیے حرام ہے۔‘‘ لوگ آپ کی یہ بات سن کر رو پڑے اور سب نے آپ کو اجازت دے دی، پھر بعض لوگ ایک دوسرے سے یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ اے عمر تمہاری خوبیاں تو بس اللہ ہی کے لیے ہیں، تم نے اپنے بعد کے خلفاء کو تھکا دیا۔ [4]
[1] الزہد، لإمام أحمد، ص: ۱۲۵۔ الطبقات: ۳/ ۲۷۷ [2] الفاروق أمیر المؤمنین، د/ لماضۃ، ص: ۱۱ [3] مصنف ابن ابی شیبۃ، أخرجہ ابن ابی شیبۃ: ۸/ ۱۴۹۔ اس کی سند جید ہے۔ ابن عساکر: ۵۲/ ۲۴۴