کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 209
سے شکایت نہیں کرتے جب وہ تمہارے پاس آتا ہے اور جب مسلمانوں کے کام میں مشغول ہوجاتا ہے تب تم اس کے پاس آتے ہو۔ وہ آدمی اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے واپس جانے لگا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس آدمی کو میرے پاس لاؤ۔ جب دوبارہ وہ آپ کے سامنے حاضر کیا گیا تو آپ نے درّہ اس کے سامنے پھینک دیا اور کہا: درّہ ہاتھ میں لے لو اور میرے سر پر اتنے ہی زور سے مارو جتنا زور سے میں نے تم کو مارا تھا۔ اس نے کہا: ایسا نہیں ہوسکتا، اے امیر المومنین! میں اللہ کے لیے اور آپ کی عظمت کی وجہ سے اسے درگزر کرتا ہوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس طرح نہیں، یا تو اسے اللہ کی رضا کے لیے اور اس سے ثواب کی خاطر معاف کرو یا مجھ سے بدلہ لو۔ اس نے کہا: امیر المومنین میں اللہ کے لیے اسے معاف کرتا ہوں۔ پھر وہ واپس چلا گیا۔ اور عمر رضی اللہ عنہ پیدل چل کر اپنے گھر میں داخل ہوگئے۔ [1] دوسرے لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے، ان میں احنف بن قیس بھی تھے جنہوں نے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔ پھر آپ نے نماز شروع کی اور دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد بیٹھ گئے، پھر خود کو مخاطب کرکے کہا: اے خطاب کے بیٹے! تو بے وقعت تھا، اللہ نے تجھے اونچا مقام دیا، تو گمراہ تھا اللہ نے تجھے ہدایت دی، تو ذلیل تھا اللہ نے تجھے عزت عطا کی، پھر تجھے مسلمانوں کا ذمہ دار بنایا، تیرے پاس ایک آدمی مدد کا طالب بن کر آیا اور تو نے اسے مارا، کل جب تو اپنے ربّ کے سامنے حاضر ہوگا تو اسے کیا جواب دے گا؟ اس طرح آپ نے خود کو بہت ملامت کی، میں نے اس وقت یقین کرلیا کہ آپ روئے زمین پر اس وقت سب سے نیک آدمی ہیں۔[2] ایاس بن سلمہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں بازار میں تھا کہ ادھر سے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا، آپ کسی ضرورت سے جا رہے تھے آپ کے ہاتھ میں درّہ تھا، آپ نے انہیں دھکیلتے ہوئے کہا: اے سلمہ! اس طرح راستے سے ہٹ کر چلو اور آپ نے مجھے ایک کوڑا رسید کیا، اتفاق سے وہ میرے کپڑے کے کنارے لگا، میں راستہ سے ہٹ گیا، آپ نے پھر کچھ نہ کہا۔ یہاں تک کہ دوسرے سال جب آپ بازار میں مجھ سے ملے تو کہا: اے سلمہ کیا اس سال حج کا ارادہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں! اے امیر المومنین، آپ نے میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ لیا اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے آپ مجھے لے کر اپنے گھر گئے اور (۶۰۰) درہم کی بھری ہوئی ایک تھیلی نکالی اور کہا: اے سلمہ اسے لے جاؤ اور اس سے اپنا کام چلاؤ، اور جان لو کہ یہ عنایت گزشتہ سال کے دھکیلنے کے بدلہ میں ہے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم اے امیر المومنین، اگر آپ یاد نہ دلاتے تو مجھے وہ یاد ہی نہ تھا۔ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم، میں اسے اب تک نہ بھولا تھا۔ [3] محاسبۂ نفس کے بارے میں کہا کرتے تھے: ’’اپنے نفس کا خود محاسبہ کیا کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا
[1] تاریخ بغداد: ۴/ ۳۱۲ [2] التاریخ الإسلامی: ۱۹/ ۴۶ [3] الفاروق، الشرقاوی، ص: ۲۲۲