کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 205
بہرحال محل نزاع ہے اور تاریخ وفات کو اس لیے نہیں منتخب کیا کہ وہ مسلمانوں کے رنج والم اور افسوس کو زندہ کرنے کا سبب تھی، لہٰذا صرف واقعہ ہجرت ہی اس کے لیے مناسب تھا۔ البتہ مہینہ کو ربیع الاوّل سے محرم تک اس لیے مؤخر کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا عزم محرم ہی کے مہینہ میں کرلیا تھا، اس وقت جب کہ ذی الحجہ میں بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی تھی اور وہی ہجرت کا پیش خیمہ تھی۔ اس طرح بیعت عقبہ ثانیہ اور ہجرت کا پختہ ارادہ کرلینے کے بعد جس مہینہ میں چاند طلوع ہوا وہ محرم کا مہینہ تھا۔ لہٰذا آپ نے مناسب سمجھا کہ اسے ہی نقطہ آغاز بنایا جائے۔ پھر آپ نے فرمایا: ماہِ محرم سے اسلامی سال کے آغاز کے بارے میں یہی سب سے مناسب توجیہ ہے جسے میں نے سمجھا۔ [1] حکومتی سطح پر اس منفرد کارنامے کے ذریعہ سے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے جزیرۂ عرب میں مکمل اتحاد کا چراغ روشن کر دیا، چنانچہ دین واحد کے وجود سے عقیدہ کا اتحاد، تفریق کی تمام بنیادوں کو مٹا دینے سے امت کا اتحاد اور ایک اسلامی تاریخ متعین ہوجانے سے متعدد رجحانات کا اتحاد سامنے آیا اور تائید و نصرتِ الٰہی پر پورے اعتماد کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لائق ہوگئے۔ [2] امیر المومنین کا لقب: سیّدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ‘‘ کہے جاتے تھے، لیکن جب آپ کی وفات ہوگئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: جو عمر رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ ہوگا اسے ’’خلیفہ خلیفہ رسول اللہ‘‘ کہا جائے گا اور اس طرح یہ سلسلہ طویل ہوجائے گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ خلیفہ کے لیے کسی نام پر اتفاق کرلیا جائے اور بعد میں آنے والے خلفاء کو بھی اسی سے پکارا جائے۔ چنانچہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ہم ’’مومن‘‘ اور عمر ’’ہمارے امیر‘‘ کہے جائیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ ’’امیر المومنین‘‘ کہے جانے لگے اور آپ سب سے پہلے اس نام سے موسوم کیے گئے۔ [3] ابن شہاب سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ابوبکر بن سلیمان بن ابوخیثمہ [4] سے پوچھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے خط میں ایسا کیوں لکھتے تھے: ’’ابوبکر خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے‘‘ اور ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ لکھتے تھے: ’’عمر بن خطاب خلیفہ ابوبکر اور جسے سب سے پہلے امیر المومنین کہا گیا، اس کی طرف سے‘‘؟ انہوں نے کہا کہ میری دادی شفاء [5] نے مجھے بتایا … وہ پہلے ہجرت کرنے والی صحابیات میں سے تھیں اور عمر رضی اللہ عنہ جب بھی بازار جاتے تو ان سے ضرور ملتے … عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عراق کے گورنر کے پاس لکھا کہ میرے پاس دو بہادر اور شریف لوگوں کو بھیج دو، میں ان سے عراق اور اس کے باشندگان کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ [6]
[1] محض الصواب: ۱/ ۳۱۶۔ ابن الجوزی، ص: ۶۹ [2] آپ عبید اللہ بن ابی رافع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے، عبید اللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ۔ [3] المستدرک: ۳/ ۱۴۔ حاکم نے اس کی تصحیح کی ہے اور ذہبی نے آپ کی موافقت کی ہے۔ [4] تاریخ الإسلام، الذہبی، ص: ۱۶۳ [5] آپ کا نام عبداللہ بن ذکوان القرشی ہے، ثقہ ہیں ۔ التقریب، ص: ۳۰۲ [6] محض الصواب: ۱/ ۳۱۷