کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 202
لیا۔ آپ نے کہا: میں نے خود کو اس منصب خلافت کے لیے مشغول کر دیا ہے تو اس (بیت المال) سے مجھے کتنا لینا درست ہے؟ سیّدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: کھائیے اور کھلائیے۔ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ [1] نے بھی یہی رائے پیش کی۔ پھر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: دوپہر اور شام کا کھانا۔ چنانچہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی پر عمل کیا اور بیت المال سے اپنا حق لینے کے بارے میں کہا: میں نے اللہ کے مال کی حفاظت میں خود کو یتیم کے نگران کے قائم مقام بنا لیا ہے۔ اگر میں اس سے بے نیاز ہوگیا تو لینا چھوڑ دوں گا اور اگر اس کا ضرورت مند ہوا تو اس میں سے معروف طریقہ سے کھاؤں گا۔ [2] اور ایک روایت میں ہے کہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ صحابہ کی ایک جماعت کے پاس گئے اور ان سے پوچھا: تم مجھے اللہ کے مال سے کتنا لینے کی اجازت دیتے ہو؟ یا اللہ کے مال کے علاوہ کہا: اس مال سے کتنی اجازت دیتے ہو؟ صحابہ نے کہا: امیر المومنین اس سلسلہ میں ہم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو تم کو بتا دوں کہ اس میں سے کتنا (اپنے لیے) حلال سمجھتا ہوں؟ جتنے میں سواری خرید سکوں تاکہ اس پر سوار ہو کر حج وعمرہ کرسکوں اور موسم سرما میں سردی کا ایک جوڑا، اور موسم گرما میں گرمی کا ایک جوڑا اور میرے اہل وعیال کے لیے آسودگی بھر خوراک اور میرا حصہ مسلمانوں میں، کیونکہ میں مسلمانوں ہی کا ایک فرد ہوں۔‘‘ معمر کا بیان ہے کہ آپ جس سواری سے حج وعمرہ کرتے تھے وہ صرف ایک اونٹ تھا۔[3] خلیفۂ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی رعایا کی امانت کی ادائیگی کی زندہ وتابناک مثالیں چھوڑی ہیں۔ مالک بن اوس بن حدثان سے روایت ہے کہ ایک موقع پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مال فے کا ذکر کیا اور کہا: اس مال فے کا میں تم سے زیادہ مستحق نہیں ہوں، بلکہ اس مال کا کوئی بھی کسی سے زیادہ مستحق نہیں ہے، مگر ہم کتاب اللہ اور تقسیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنے اپنے مراتب پر ہیں۔ پس آدمی کو حصہ ملے گا اور اس کے سبقت اسلام کی رعایت ہوگی اور آدمی کو حصہ ملے گا اور اس کی مجاہدانہ کاوشوں کی رعایت ہوگی اور آدمی کو حصہ ملے گا اور اس کے کثرت اہل وعیال کی رعایت ہوگی اور آدمی کو حصہ ملے گا اور اس کی ضرورت کی رعایت ہوگی۔ [4] ربیع بن زیاد حارثی سے روایت ہے کہ وہ سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، آپ کی بدحالی اور تنگی دیکھ کر تعجب میں پڑ گئے اور کہنے لگے: ’’اے امیر المومنین! آپ اچھے کھانے، بہترین سواری اور نرم کپڑے کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ اس وقت آپ موٹی خوراک تناول فرما رہے تھے۔ یہ سن کر آپ نے اپنے پاس رکھا ہوا ایک ڈنڈا
[1] المجتمع الاسلامی، د/ محمد ابوعجوۃ، ص: ۲۴۵ [2] السلطۃ التنفیذیۃ: ۱/ ۲۱۵ [3] المبسوط: ۱۵/ ۱۴۷۔ ۱۶۶۔ المغنی: ۵/ ۴۴۵ [4] السلطۃ التنفیذیۃ: ۱/ ۲۱۵ [5] السلطۃ التنفیذیۃ: ۱/ ۲۱۶