کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 190
فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ (البقرۃ: ۱۹۴) ’’پس جو تم پر زیادتی کرے سو تم اس پر زیادتی کرو، اس کی مثل جو اس نے تم پر زیادتی کی ہے ۔‘‘ اسلام نے حق امن کے ساتھ حق زندگی کا بھی تعارف پیش کیا ہے، البتہ اس کا دائرہ حق امن سے زیادہ وسیع ہے۔ اس لیے کہ حق امن کا مسئلہ حکومت کی طرف سے منفی پہلو کو شامل ہوتا ہے، منفی پہلو کو شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ظالم کو سرکشی کرنے اور دھمکیاں دینے سے روکا جاتا ہے جب کہ حق زندگی میں ہر ظلم وتعدی کے دفاع کے ساتھ ساتھ جسم وجان کی حفاظت کا مثبت پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ حفاظت کی یہ ذمہ داری عمومی ہوتی ہے اور سب پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ کسی فرد واحد کا ناحق قتل تمام انسانوں کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ [1] ارشادِ الٰہی ہے: مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا (المائدۃ:۳۲) ’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ جس نے ایک جان کو کسی جان کے (بدلے کے) بغیر، یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا اور جس نے اسے زندہ کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندہ کیا۔‘‘ قرآنی دستور اور نبوی تربیت کی وجہ سے عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے دور حکومت میں تمام افراد کو امن وسکون دینے اور ان کی زندگی کی حفاظت کرنے میں کامیاب رہے اور قیام امن وحفاظت زندگی کے حقوق کو استحکام بخشنے، انہیں ہر قسم کی دست درازیوں سے بچانے اور کھلواڑ بننے سے ان کی حفاظت کے لیے شب بیداری کرتے رہے۔ آپ کہا کرتے تھے: ’’میں نے تم پر اپنے گورنروں کو اس لیے نہیں متعین کیا کہ وہ تمہاری چمڑیاں ادھیڑیں، تمہیں بے عزت کریں اور تمہارے مال غصب کرلیں، بلکہ انہیں اس لیے گورنر بنا کر بھیجا ہے تاکہ تمہیں اللہ کی کتاب اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم دیں۔ لہٰذا اگر کسی پر اس کا گورنر کوئی ظلم کرے تو وہ مجھے بتائے تاکہ میں اس کا بدلہ دلا سکوں۔‘‘ [2] اور آپ کا قول ہے کہ ’’کسی آدمی کو اقرار جرم کے لیے میں تکلیف دوں، دھمکیاں دوں، یا قید کردوں تو گویا وہ اپنی جان
[1] الاموال، أبوعبید، ص: ۲۴۵ [2] الخراج، أبویوسف، ص: ۷۹