کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 188
رہے تھے۔ امام بیہقی نے اپنی سنن میں اور عبدالرزاق بن ہمام صنعانی نے اپنی کتاب ’’مصنف‘‘ میں، ابن مسیب اور ابن شہاب سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا یَجْتَمِعُ دِیْنَانِ فِیْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ۔)) ’’جزیرۂ عرب میں دو دین اکٹھے نہیں ہوسکتے۔‘‘ امام مالک کا بیان ہے کہ ابن شہاب نے کہا کہ اس سلسلہ میں عمر رضی اللہ عنہ نے خوب چھان بین کی، یہاں تک کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بارے میں اطمینان ویقین ہوگیا کہ آپ نے فرمایا ہے: (( لَا یَجْتَمِعُ دِیْنَانِ فِیْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ۔)) چنانچہ آپ نے خیبر کے یہودیوں کو جلا وطن کردیا۔ امام مالک کا کہنا ہے کہ عمر بن خطاب نے نجران اور فدک کے یہودیوں کو جلا وطن کیا۔ [1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر کامل یقین تھا، یہی وجہ تھی کہ یہود اور نجران کے نصاریٰ نے اسلام اور مسلمانوں کے تئیں اپنے سخت بغض و عداوت اور حسد کے باعث مسلمانوں کے ساتھ اپنے عہد ومعاہدہ کا التزام نہ کیا۔ چنانچہ خیبر سے یہودیوں کی جلا وطنی کے بارے میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب خیبر والوں نے عبداللہ بن عمر کا ہاتھ پیر مروڑ ٹیڑھا کردیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے بٹائی کا معاملہ کیا تھا، اور فرمایا تھا: ’’ نُقِرُّکُمْ مَا أَقَرَّکُمُ اللّٰہُ))’’جب تک اللہ تعالیٰ تم کو یہاں رکھے گا ہم بھی تم کو قائم رکھیں گے۔‘‘ … اور عبداللہ بن عمر اپنا مال وہاں لینے گئے، تو یہودیوں نے رات کو ان پر حملہ کر دیا اور ان کے ہاتھ پاؤں مروڑ ڈالے۔ وہاں ان یہودیوں کے علاوہ ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے، وہی ہمارے دشمن ہیں اور انہی پر ہمارا گمان ہے۔ میں ان کو وہاں سے نکال دینا چاہتا ہوں۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا پختہ ارادہ کرلیا تو ابوحقیق کے لڑکوں میں سے ایک آپ کے پاس آیا اور کہا: کیا آپ ہم کو نکال دیں گے؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ٹھہرایا تھا اور ہم سے بٹائی کا معاملہ کیا تھا اور شرط کرلی تھی (کہ یہیں رہنا۔) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تو سمجھتا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھول گیا ہوں، آپ نے فرمایا تھا: ’’کَیْفَ بِکَ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْ خَیْبَرَ تَعْدُوْ بِکَ قَلُوْصُکَ لَیْلَۃً بَعْدَ لَیْلَۃٍ۔‘‘،’’اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب تو خیبر سے نکالا جائے گا، راتوں رات تیری اونٹنی تجھے لیے پھرے گی۔‘‘ اس نے کہا: یہ تو ابوالقاسم نے مذاق سے کہا تھا۔ آپ نے فرمایا: اے اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے اور پھر آپ نے وہاں سے یہودیوں کو نکال دیا، اور پیداوار میں جو ان کا حصہ تھا اس کی قیمت ان کو دلوا دی کچھ نقد کچھ سامان دیا اونٹ، پالان، رسیاں وغیرہ۔ [2]
[1] نظام الحکم فی عہد الخلفاء الراشدین، ص: ۱۶۰ [2] المرتضٰی سیرۃ أمیر المومنین، أبوالحسن ندوی، ص: ۱۰۹ [3] المرتضٰی سیرۃ أمیر المومنین، أبوالحسن ندوی، ص: ۱۰۹ [4] القیود الواردۃ علی سلطۃ الدولۃ، ص: ۱۵۱