کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 185
بجا لاتے تھے، لیکن کوئی اس سے انہیں منع نہیں کرتا تھا، محض اس لیے کہ اسلامی شریعت نے انہیں عقیدہ کی پوری آزادی دے رکھی تھی۔ امام طبری رحمہ اللہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس معاہدہ کو نقل کیا ہے جس میں آپ نے ایلیا (بیت المقدس) والوں کی جان، مال، صلیب اور کنیسوں کو تحریری امان دی تھی۔ [1] اسی طرح مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مصر والوں کے لیے جو معاہدہ لکھا تھا اس میں تحریر تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم ’’عمرو بن عاص کی طرف سے مصر والوں کے لیے یہ عہد نامہ ہے کہ انہیں ان کی جان، مذہب، مال، کنیسے اور صلیب میں نیز خشکی وسمندر میں امان دی جا رہی ہے۔‘‘ اور آپ نے مزید یہ کہتے ہوئے اپنے عہد نامہ کو پختہ کیا: ’’میرے اوپر یہ عہد نامہ یعنی اللہ کا عہد، اس کے رسول، امیر المومنین اور مسلمانوں کے ذمہ نافذ ہوگا۔‘‘ [2] فقہاء کا اتفاق ہے کہ [3] (اسلامی حکومت میں) ذمیوں کو اپنے مذہبی شعائر کی ادائیگی کا پورا حق ہے اور جب تک وہ ان شعائر کو علانیہ نہ کریں انہیں منع نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ ان شعائر کو علی الاعلان بجا لانا چاہتے ہیں، مثلاً صلیب کا جلوس باہر نکالیں تو فقہاء کی نگاہ میں انہیں صرف مسلم آبادی کے علاقوں میں اس سے منع کیا جائے گا، ان کے شہروں اور گاؤں میں نہیں منع کیا جائے گا۔ [4] محمد غزالی نے آزادی عقیدہ کے باب میں اسلام کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’دنیا والوں کے لیے جس مذہبی آزادی کا اسلام ضامن ہے، سات براعظموں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مستقل طور پر کسی دین کی عالمی گرفت رہی ہو اور اپنے مذہبی مخالفین کو ترقی وبقا کے وہ اسباب مہیا کیے ہوں جنہیں اسلام نے پیش کیا۔‘‘ [5] عمر فاروق رضی اللہ عنہ معاشرہ میں مذہبی عقیدہ کی مکمل آزادی دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ آپ نے یہود ونصاریٰ کے بارے میں اپنی سیاست کو نہایت مختصر وجامع انداز میں اس طرح بیان کیا: ’’ہم نے ان سے اس شرط پر معاہدہ کیا ہے کہ ان کے اور ان کے کنیسوں کے درمیان ہم کوئی رخنہ نہیں ڈالیں گے، ان کی جو مرضی ہوگی وہ اس میں پڑھیں گے۔ وہ جس چیز کی طاقت نہیں رکھتے ہم انہیں اس کے لیے مکلف نہیں کریں گے، اگر ان کے دشمن ان کو تکلیف دینا چاہیں تو ہم ان سے
[1] معاملۃ غیر المسلمین فی المجتمع الإسلامی، إدوار غالی، ص: ۴۱ [2] نظام الحکم فی الشریعۃ الإسلامیۃ والتاریخ الإسلامی: ۱/ ۵۸