کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 184
اس موضوع سے متعلق اور بھی بہت سی آیات ہیں۔ بہرحال سیرت فاروق سے ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ آپ نے اپنے دورِ حکومت میں مذہبی آزادی کی پوری حمایت کی اور اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق کے نقش قدم پر چلتے رہے، آپ نے اہل کتاب کو ان کے مذہب پر باقی رکھا، ان سے جزیہ وصول کیا اور عہد ومعاہدہ کیا جس کی تفصیل آگے آرہی ہے، ان کی عبادت گاہوں کو منظم کیا گیا، ان کو ڈھایا نہیں گیا، بلکہ اپنی حالت پر چھوڑ دیا گیا، اس لیے کہ اللہ کا ارشاد ہے: وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيرًا (الحج:۴۰) ’’اور اگر اللہ کا لوگوں کو ان کے بعض کو بعض کے ذریعہ ہٹانا نہ ہوتا تو ضرور ڈھا دیے جاتے (راہبوں کے) جھونپڑے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوںکے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔‘‘ چنانچہ عہد فاروقی کی اسلامی فتوحات جسے صحابہ نے بڑی بے جگری سے انجام دیا، اس بات پر شاہد ہیں کہ اسلام نے دیگر مذاہب کا پورا احترام کیا ہے اور اس کی اعلیٰ قیادت کسی کو زبردستی مسلمان بنانے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہے۔ ایک مرتبہ ایک بوڑھی نصرانی عورت اپنی کسی ضرورت سے عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی تو آپ نے اس سے کہا: مسلمان ہوجاؤ، محفوظ رہوگی۔ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا تھا۔ اس نے جواب دیا: میں بہت ہی بوڑھی عورت ہوں اور موت میرے بہت ہی قریب ہے۔ آپ نے اس کی ضرورت پوری کردی، لیکن ڈرے کہ کہیں آپ کا یہ کام اس کی ضرورت سے غلط فائدہ اٹھا کر اسے مجبوراً مسلمان بنانے کے مترادف نہ ہوجائے۔ اس لیے آپ نے اپنے عمل سے اللہ سے توبہ کی اور کہا: اے اللہ! میں نے اسے سیدھی راہ دکھائی تھی اسے مجبور نہیں کیا تھا۔ [1] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کا ایک نصرانی غلام تھا اس کا نام ’’اشق‘‘ تھا، اس کا بیان ہے کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کا نصرانی غلام تھا، آپ نے مجھ سے کہا: مسلمان ہوجاؤ تاکہ مسلمانوں کے بعض معاملات میں تم سے میں مدد لیا کروں کیونکہ ہمارے لیے یہ مناسب نہیں کہ مسلمانوں کے معاملے میں ان لوگوں سے مدد لوں جو غیر مسلم ہیں۔ لیکن میں نے انکار کردیا تو آپ نے فرمایا: لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ’’دین اسلام میں زبردستی نہیں۔‘‘ اور جب آپ کی وفات قریب ہوئی تو آپ نے مجھے آزاد کر دیا اور کہا: تمہاری جہاں مرضی ہو چلے جاؤ۔ [2] اہل کتاب اپنی عبادت گاہوں اور گھروں میں اپنے مذہبی شعائر کی ادائیگی کرتے اور عبادت کے طریقوں کو
[1] مذہبی عقیدہ کی آزادی صرف غیر مسلموں کے لیے ہے بشرطیکہ وہ اس کی نشر واشاعت نہ کریں ، البتہ مسلمانوں کے لیے یہ آزادی نہیں کہ جس طرح کے کفریہ وشرکیہ افکار وعقائد چاہیں اختیار کریں ، بلکہ ان پر ارتداد کا قانون اور مرتد کی سزا نافذ ہوگی۔ (مترجم)