کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 182
سے بے نیاز ہو کر صرف ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی گئی، توحید کی اس دعوت میں بنی نوع انسان کے لیے آزادی واستقلال کے تمام معانی پوشیدہ تھے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اسلام نے آزادی کے تمام تر معانی، مدلولات اور مفاہیم کا ایک جامع تعارف پیش کیا۔ پس کبھی یہ آزادی مثبت عمل کی شکل میں سامنے آتی ہے جیسے کہ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اور کبھی منفی عمل کی شکل میں سامنے آتی ہے جیسے کہ جبراً کسی کو دین اسلام میں داخل کرنے سے منع کرنا اور بیشتر مواقع پر رحمت، عدل، مشورہ اور مساوات کی شکل میں آزادی کا مفہوم سامنے آتا ہے۔ اس لیے کہ مذکورہ تمام ہی زرّیں اصول جن کا اسلام نے مطالبہ کیا ہے آزادی کے بغیر ان کا وجود نہیں ہوسکتا اور نہ وہ صحیح شکل میں باقی رہ سکتے ہیں۔ خلفائے راشدین کے دور حکومت میں آزادی کے اصولوں کا بول بالا رہا، خاص طور سے دین اسلام کی تیزی سے نشر واشاعت، مسلمانوں کی فتوحات میں پیش رفت اور ان کی ملکی سرحدوں میں وسعت کے ساتھ ساتھ اسلامی حریت کا خوب رواج ہوا۔ اس لیے کہ اسلام ہی نے انسانوں کو اعزاز بخشا اور اسے سب سے زیادہ آزادی سے نوازا اور اس لیے بھی کہ اس دور میں روم وفارس کی حکومتوں کے جو سیاسی نظام وقوانین نافذ تھے سب ظلم واستبداد اور گروہ بندی ودھڑے بازی پر مبنی تھے جس سے رعایا تنگ آچکی تھی۔ خاص طور پر سیاسی مخالفین اور مذہبی اقلیتیں بدترین وحشت ومظالم اور مصائب ومشکلات کا شکار تھیں۔ مثال کے طور پر رومی سلطنت یعقوبی مذہب کے ماننے والوں کو، خاص طور پر مصر وشام میں، اس بات پر مجبور کرتی تھی کہ ملکانی مذہب کو جو وہاں کا ملکی مذہب ہے، قبول کریں۔ بہت سارے مخالفین کو مشعلوں سے ڈھونڈ نکالا گیا، مشعل کی آگ جلی اور اسے مخالفین کے جسموں میں لگا دیا گیا، یہاں تک کہ وہ سب جل کر راکھ ہوگئے، اور ان کے پہلوؤں کی چربیاں زمین پر بہنے لگیں اور سنگ دل جابر حکمران مقدونی مجلس کی قرار داد کے مطابق اسے ایمانی کام سمجھتے رہے، یا ایسے مخالفین کو ریت کی بوریوں میں بھر کر سمندر کی گہرائیوں میں ڈال دیا گیا۔ فارسی سلطنت بھی مختلف ادوار میں آسمانی ادیان کے ماننے والوں پر بربریت کا پہاڑ توڑتی تھی اور جب رومی سلطنت سے اس کی لڑائی تیز ہوگئی تو اس وقت مسیحیوں پر خاص مظالم ڈھائے، لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا دور آیا تو سب کو عام آزادی میسر ہوئی جو آج بھی ہمارے درمیان معروف ہے اور مکمل طور پر محفوظ ہے۔[1] اب میں دور فاروقی کی آزادیوں سے متعلق چند چیزوں کا تفصیل سے ذکر کر رہا ہوں:
[1] فن الحکم فی الإسلام، ص: ۴۷۷، ۴۷۸ [2] فن الحکم فی الإسلام، ص: ۴۷۸ [3] المجتمع الإسلامی دعائمہ وآدابہ، د/ محمد أبوعجوۃ، ص: ۱۶۵