کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 177
گھی مہنگا ہوگیا، عمر رضی اللہ عنہ تیل کھانے لگے، جس سے آپ کا پیٹ گڑگڑانے لگا، آپ نے پیٹ کو مخاطب کرکے کہا: تم جتنا چاہو گڑگڑاؤ، تم اس وقت تک گھی نہ کھاؤ گے جب تک کہ لوگ اسے نہ کھانے لگیں۔ [1] (۲)… خلفائے راشدین کے دور میں مساوات کے اصول کی تنفیذ کسی ایک معاملہ پر منحصر نہ رہی، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مخصوص معاشرتی احوال تک میں اس کا نفاذ ہوا۔ حتیٰ کہ اس کی مثال خادم ومخدوم میں بھی دیکھی گئی۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حج کرنے گئے۔ صفوان بن امیہ نے ان کے لیے کھانا پکایا، وہ (صحابہ) ایک بڑے برتن میں کھانا چار آدمی اٹھا کر لائے، کھانا سب کے سامنے رکھا گیا، سب کھانے لگے اور خادم کھڑے رہے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تم انہیں اپنے سے دور رکھتے ہو؟ سفیان بن عبداللہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہے اے امیر المومنین! البتہ خود کو ان پر ترجیح دیتے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے، اپنے خادموں پر خود کو ترجیح دیتے ہیں (یعنی پہلے خود کھاتے ہیں پھر ان کو کھلاتے ہیں) اللہ ان کے ساتھ ایسا ہی کرے۔ پھر خادموں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: تم لوگ بھی بیٹھو اور کھاؤ، چنانچہ خادم بھی بیٹھ گئے اور کھانے لگے اور امیر المومنین نے نہیں کھایا۔ [2] جب تک سارے مسلمانوں کو کھانا میسر نہ ہوتا آپ خود نہیں کھاتے تھے، آپ ایک دن چھوڑ کر ایک دن روزہ رکھتے تھے۔ عام الرمادۃ میں شام کے وقت ایک روٹی کھاتے، تیل میں توڑ کر ثرید بنالیتے، مسلسل کئی دنوں تک یہی حالت تھی، یہاں تک کہ ایک دن صحابہ نے چند اونٹوں کو ذبح کیا، [3] اور لوگوں کو کھلایا اور ایک کپ بھر کر اچھا گوشت آپ کے پاس لایا گیا، اس میں کوہان اور کلیجے کی چند بوٹیاں تھیں۔ آپ نے کہا: یہ کہاں سے آیا؟ صحابہ نے کہا: امیر المومنین! ان اونٹوں کا گوشت ہے جنہیں ہم نے آج ذبح کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: تھو تھو، میں کتنا برا حاکم ہوں، کہ بہترین گوشت میں کھاؤں اور دوسرے لوگ ہڈیاں کھائیں، پھر روٹی اور تیل لایا گیا، آپ اسے اپنے ہاتھ سے توڑا اور اس کا ثرید بنایا۔ [4] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ عدل و مساوات کے اصول کو صرف مدینہ ہی میں نہیں نافذ کرنا چاہتے تھے بلکہ تمام ریاستوں میں اپنے تمام گورنروں کو اسی بات کی تعلیم دینا چاہتے تھے یہاں تک کہ کھانے پینے کے بارے میں بھی۔[5] (۳)… عتبہ بن فرقد جب آذربائیجان گئے تو انہیں ضیافت میں حبیص (ایک قسم کی مٹھائی) پیش کی گئی، جب آپ نے اسے کھایا تو بہترین میٹھا پایا اور کہا: اگر اسی طرح امیر المومنین کے لیے بنایا جاتا تو بہتر ہوتا۔
[1] فقہ التمکین فی القرآن الکریم، ص: ۵۰۱ [2] فقہ التمکین فی القرآن الکریم، ص:۵۰۱۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/ ۹۸ بحوالہ نظام الحکم فی الشریعۃ والتاریخ الإسلامی: ۱/ ۸۷