کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 175
ہوجائے۔‘‘ چنانچہ ایک آدمی کے علاوہ کوئی کھڑا نہ ہوا۔ اس نے کہا: امیر المومنین! آپ کے گورنر نے مجھے سو کوڑے مارے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے (گورنر سے) فرمایا: تم نے اس کو کیوں مارا ہے؟ (اور اس آدمی سے کہا) اٹھو، اور ان سے بدلہ لو۔ (اسی دوران) عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: اے امیر المومنین! اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو یہ سلسلہ لمبا ہو جائے گا اور آپ کے بعد جو بھی آئے گا اس کے لیے یہ چیز سند بن جائے گی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں بدلہ نہ دلاؤں، حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذات خود بدلہ دلاتے ہوئے دیکھا ہے؟ عمرو بن عاص نے کہا: ہم کو اجازت دیجیے ہم اسے راضی کرلیں۔ آپ نے فرمایا: لے جاؤ اسے راضی کرلو۔ چنانچہ دو سو دینار یعنی ہر کوڑے پر دو دینار کے بدلے اسے راضی کرلیا۔ [1] اگر وہ اسے راضی نہ کرپاتے تو آپ اسے بدلہ دلاتے۔ مصر کا ایک باشندہ آپ کے پاس عمرو بن عاص کے بیٹے کی شکایت لے کر آیا … عمرو بن عاص اس وقت مصر کے گورنر تھے … اس نے کہا: اے امیر المومنین! میں ظلم سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تو نے اچھی پناہ گاہ ڈھونڈی۔ اس نے کہا: میں نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے دوڑ میں مقابلہ کیا اور میں اس سے آگے نکل گیا۔ اس پر وہ مجھے کوڑے سے مارنے لگا اور کہا میں معزز فرد کا بیٹا ہوں۔ (یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھا اور انہیں اپنے بیٹے کے ساتھ حاضر ہونے کا حکم دیا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مصری کہاں ہے؟ کوڑا لو اور مارو۔ وہ اسے مارنے لگا اور عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: ’’معزز فرد کے بیٹے کو مار۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس نے مارا، اللہ کی قسم اس نے اس کو خوب مارا اور ہماری تمنا تھی کہ اسے مارا جائے، وہ اسے مسلسل کوڑے مارتا رہا یہاں تک کہ ہم نے تمنا کی کہ اب نہ مارا جائے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے مصری سے کہا: عمرو بن عاص کے سر پر مارو۔ اس نے کہا: اے امیر المومنین! ان کے لڑکے نے مجھے مارا تھا اور میں نے اس سے بدلہ لے لیا۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا: تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے، حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا؟ عمرو بن عاص نے فرمایا: اے امیر المومنین! نہ میں نے اس واقعہ کو جانا اور نہ وہ (مصری) میرے پاس آیا۔ [2] خلفائے راشدین کی حکومت عدل کی بنیادوں پر قائم رہی، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کیا ہی خوب بات کہی ہے : ’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل پسند حکومت کی مدد کرتا ہے اگرچہ وہ کافر ہو اور ظالم حکومت کی مدد نہیں کرتا اگرچہ وہ مسلم ہو۔ عدل ہی سے افراد کی اصلاح ہوتی ہے اور اموال میں برکت ہوتی ہے۔‘‘ [3]
[1] نظام الحکم فی عہد الخلفاء الراشدین، حمد محمد عبد الصمد، ص: ۱۴۵ [2] الوسیط فی القرآن الکریم، الصلابی، ص:۹۶۔ [3] المؤطا، کتاب الأقضیۃ، باب الترغیب فی القضاء بالحق، حدیث نمبر: ۲