کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 174
جا سکتا ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل پر چلتے رہے، آپ کی سیاست اس عدل پر قائم تھی جس سے تمام انسان مستفید ہورہے تھے۔ آپ واقعیت اور حقیقت کے میدان میں اپنے عادلانہ عمل میں ایسے کامیاب رہے جس کی کوئی مثال نہیں اور جسے قبول کرنے سے عقلیں ششدر ہیں، یہاں تک کہ آپ کا نام اور عدل لازم و ملزوم ہوگئے تھے۔ جس کسی کو آپ کی سیرت سے ادنیٰ واقفیت ہے اس کے لیے بہت مشکل ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کردے۔ اس بڑی کامیابی کے پیچھے چند اسباب اور عوامل تھے جو آپ کے لیے معاون ثابت ہوئے: ۱: آپ کی مدتِ خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت سے طویل رہی۔ آپ کی مدت خلافت دس سالوں سے بھی زیادہ رہی جب کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت صرف دو سال کچھ مہینوں پر ختم ہوگئی۔ ۲: آپ حق پر مضبوطی سے قائم رہنے والے تھے، بلکہ اس سلسلہ میں دوسروں کی نسبت اپنے اور اپنے اہل وعیال پر زیادہ ہی سخت تھے، جیسا کہ ہم اس کا مشاہدہ عنقریب کریں گے۔ ۳: اللہ سے جلد ملاقات پر آپ کا ایمان اس قدر مضبوط تھا کہ ہر کام میں لوگوں کی رضامندی سے پہلے اللہ کی رضامندی کے طالب ہوتے تھے، صرف اللہ سے ڈرتے اور انسانوں میں کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ ۴: صحابہ اور تابعین کے دلوں میں اسلامی شریعت کی گرفت قوی تھی جس کی وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ کے تمام کاموں کو سب کی طرف سے فوراً تائید، مثبت جواب اور تعاون مل جاتا تھا۔ [1] ۵: لوگوں میں آپ کے عدل وانصاف کی چند مثالیں: آپ نے ایک مسلمان کے خلاف یہودی کے حق میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا، یہودی کے کفر نے آپ کو اس بات پر نہیں ابھارا کہ آپ اس پر ظلم کریں اور عدل سے ہٹ جائیں۔ امام مالک رحمہ اللہ [2] نے سعید بن مسیب کی سند سے روایت کیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مسلمان اور یہودی جھگڑا لے کر آئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ یہودی حق پر ہے لہٰذا آپ نے اس کے حق میں فیصلہ کردیا، تو یہودی نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے حق کے ساتھ فیصلہ کیا۔ [3] آپ نے اپنے گورنروں کو یہ حکم دیا تھا کہ حج کے موسم میں آپ سے ملاقات کیا کریں، جب وہ یکجا ہوجاتے تو آپ فرماتے: ’’اے لوگو! میں نے اپنے گورنروں کو تمہارے پاس اس لیے نہیں بھیجا کہ وہ تمہاری چمڑی ادھیڑ لیں اور مال ہڑپ کرلیں، ان کو میں نے بھیجا ہے تاکہ تمہارے (آپسی مظالم کے) درمیان حائل ہوں اور مالِ غنیمت کو تمہارے درمیان تقسیم کریں۔ لہٰذا جس کے ساتھ اس کے خلاف برتاؤ کیا گیا ہو وہ کھڑا
[1] فقہ التمکین فی القرآن الکریم، الصلابی، ص: ۴۵۵ [2] تفسیر الرازی: ۱۰/ ۱۴۱