کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 171
لیتے، اگر کبھی عورت کی بات میں بھلائی نظر آتی تو اسی پر عمل کرتے۔ چنانچہ اس بات کا صحیح ثبوت ملتا ہے کہ آپ نے امّ المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ لیا۔ [1] عمر رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں بزرگ ودور اندیش صحابہ میں سے کچھ مخصوص لوگ تھے جن سے آپ اکثر مشورہ کرتے اور ان کی رائے معلوم کرتے، انہی میں عباس بن عبدالمطلب اور ان کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ بلکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ہمیشہ سفر وحضر میں اپنے ساتھ رکھتے تھے نیز انہی مخصوص صحابہ میں عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف اور علی بن ابی طالب، [2] معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم[3] جیسے لوگ بھی تھے۔ [4] مشورہ دینے والے مکمل آزادی اور پوری صراحت سے اپنی رائے ظاہر کرتے تھے۔ لیکن آپ نے ان میں سے کسی کی عدالت وامانت کو متہم نہیں کیا۔ آپ انہی مسائل میں مشورہ لیتے تھے جس میں کتاب وسنت کی کوئی واضح دلیل نہ ہوتی تھی۔ ان مشوروں سے آپ کا مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ درپیش مسئلہ میں اگر کسی صحابی کو کوئی حدیث معلوم ہے تو وہ آپ کو بھی معلوم ہوجائے، کیونکہ بعض صحابہ کو کچھ احادیث یاد ہوتی تھیں اور دوسرے اسے نہیں جانتے تھے۔ اسی طرح وہ شرعی نصوص جن میں متعدد معنوں کا احتمال ہوتا تھا ان کی افہام وتفہیم کے لیے مشورہ لیتے تھے تاکہ ان معانی اور مختلف توجیہات کو سمجھ سکیں۔ مذکورہ دونوں معاملات میں بسا اوقات ایک اور کبھی چند لوگوں کا مشورہ کافی سمجھتے تھے، لیکن اگر عمومی حوادث وواقعات کی بات ہوتی تو تمام صحابہ کو اکٹھا کرتے اور حتیٰ المقدور مشورہ کا دائرہ کار وسیع ہی کرتے، جیسے کہ شام میں طاعون کی وبا پھیلنے کے وقت کیا، جب کہ آپ خود وہاں جا رہے تھے۔ [5] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کو اس وباء کی خبر پہنچی اور شام کے قریب میں مقام ’’سرغ‘‘ پر گورنروں کی آپ سے ملاقات ہوئی، آپ کے ساتھ مہاجرین اور انصار تھے، آپ نے ان کو مشورہ کے لیے اکٹھا کیا کہ کیا سفر جاری رکھوں یا واپس لوٹ جاؤں؟ لیکن مشورہ میں اختلاف ہوگیا۔ کسی نے کہا: آپ خالص اللہ کی رضا جوئی کے لیے نکلے ہیں، یہ وبا آپ کو ارادے سے نہ پھیر دے۔ کسی نے کہا یہ ایک ناگہانی مصیبت ہے اور موت وحیات کا مسئلہ ہے، ہماری رائے میں آپ آگے نہ بڑھیں۔ پھر آپ نے فتح مکہ کے قریشی مہاجرین کو بلایا، انہوں نے بلا اختلاف رائے آپ کو واپس ہوجانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کروا دیا کہ میں (واپسی کے لیے) کوچ کرنے والا ہوں۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا اللہ کی تقدیر سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے؟ آپ نے جواب دیا:
[1] الخلفاء الراشدون، النجار، ص: ۲۴۶ [2] الخلفاء الراشدون، النجار، ص: ۲۴۷ [3] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۹۰ [4] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۴۷ [5] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۹۰