کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 166
۱۲: عرب کے قیدیوں کی واپسی: عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ حکومت میں سب سے پہلے جو قرار داد پاس کی وہ یہ تھی کہ مرتدین کے قیدیوں کو ان کے خاندان والوں کے پاس واپس کر دیا جائے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ قیدی بنانا عربوں میں رواج بن جائے۔‘‘ [1] عمر رضی اللہ عنہ کے اس جرأت مندانہ اقدام نے سارے عربوں میں یہ احساس بیدار کر دیا کہ وہ سب اللہ کی شریعت میں برابر ہیں۔ کسی قبیلہ کو دوسرے قبیلہ پر کوئی فضیلت نہیں ہے مگر یہ کہ بہتر کارکردگی ہو اور اسلام ومسلمانوں کی عظیم ترین خدمات انجام دی ہو۔ مزید برآں اس اقدام کے پیچھے ہی آپ نے دوسرا اقدام یہ کیا کہ مرتدین میں سے جس نے توبہ کرلی اور دشمنانِ اسلام کے خلاف محاذ آرائی میں شریک ہوگیا اسے آپ نے معاف کردیا۔ اور پھر انہوں نے جنگ میں بہادری کا مظاہرہ کیا، مڈبھیڑ کے وقت خوب بہادری کے جوہر دکھلائے اور ملک کے لیے ایسی وفاداری کا ثبوت دیا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ [2] ۱۳: منصب خلافت کی جڑیں امت کے دل میں پیوست ہوگئیں اور وہ ان کے اتحاد وقوت کی علامت بن گئی۔ ایک محقق اس عظیم ایمانی طاقت وقوت کو ملاحظہ کرسکتا ہے جس سے صحابہ کرام نوازے گئے تھے، اسی طرح ان کے اعمال میں روحانیت وحقیقت پسندی کا جائزہ بھی لے سکتا ہے کہ وفات رسول کے دن نہایت مختصر سی مدت میں انہوں نے خلافت قائم کرلی تھی، جو مختلف صورتوں میں دنیا کے مختلف خطوں میں کئی صدیوں تک جاری رہی، حالانکہ یہ بہت کمزور ہو چکی تھی، پھر بھی اسے ختم کرنے کے لیے برطانوی سازش کو پورے پچیس (۲۵) سالوں کی ضرورت پڑی، باوجودیکہ اس وقت خلافت کو برطانوی سامراج ’’مرد بیمار‘‘ کہا کرتا تھا، غور کا مقام ہے کہ خلافت میں بلندی وقوت کا کیا راز تھا؟ اور اس کا کتنا اثر ورسوخ تھا جس کے ڈھانے کی ضرورت محسوس کی گئی، جب کہ خلافت کی کئی صدیاں گزر چکی تھیں؟ … خاص طور پر اس وقت جب کہ خلافت صرف ظاہری شکل میں باقی تھی اور حقیقت سے دور ہوچلی تھی … اس کو ڈھانے کے لیے مکمل پچیس (۲۵) سال لگے۔ [3] ۱۴: خلافت وملوکیت میں فرق: عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ خلیفہ ہوں یا بادشاہ، اگر میں بادشاہ ہوں تو یہ بہت بڑی چیز ہے۔‘‘ ایک کہنے والے نے کہا: دونوں میں فرق ہے! خلیفہ حق ہی لیتا ہے اور حق ہی کی جگہ پر اسے خرچ کرتا ہے، ایک سے لیتا ہے اور دوسرے کو دیتا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر خاموش رہے۔ [4] ایک دوسری روایت میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا میں خلیفہ ہوں یا بادشاہ؟ سلمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اگر آپ نے (حکومت کے) خزانہ سے ایک درہم یا اس سے زیادہ یا اس سے کم لیا
[1] نظام الحکم فی الشریعۃ والتاریخ الإسلامی، ص:۲۶۰۔ عہد راشدی کے اس طرز عمل سے یہ حقیقت آشکارا ہوجاتی ہے کہ خلیفہ کا انتخاب اصحاب حل وعقد اور امت کے باشعور افراد کا کام ہے، اور یہ باشعور طبقہ اس وقت مدینہ میں موجود تھا، اس لیے انہی کے انتخاب کا اعتبار کیا گیا اور پوری ملت اسلامیہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا، عوام الناس اور عام لوگوں کا یہ کام نہیں ہے بلکہ اصحاب حل وعقد نے جو پاس کر دیا ان پر اسے قبول کرنا لازم ہے، جمہوریت اور ڈیمو کریسی کا نظام انتخاب غیر معقول اور غیر اسلامی ہے۔ (مترجم) [2] نظام الحکم فی الشریعۃ والتاریخ الإسلامی، ص:۲۶۰۔ یہاں یہ کہنا کہ عورتوں کی بیعت کی ممانعت کی کوئی دلیل مجھے نہیں ملی صحیح نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ۔))’’تم میری سنت اور ہدایت یاب خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو اور اسے مضبوطی کے ساتھ دانتوں سے تھام لو۔‘‘ پس خلفائے راشدین کے عہد میں خواتین کو بیعت خلافت میں شریک نہ کیا گیا اور صحابہ میں سے کسی نے اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی جس سے اس امر پر صحابہ کا اجماع واتفاق ظاہر ہوتا ہے، لہٰذا خواتین کو بیعت اور ووٹ میں شریک کرنا خلفائے راشدین کی سنت کی خلاف ورزی ہے جو کسی طرح جائز نہیں ۔ (مترجم)