کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 165
اس وقت مدینہ میں موجود ہوتے۔ لیکن بقیہ شہروں کے لوگ مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں طے پانے والے فیصلوں کے تابع ہوتے۔ یاد رہے کہ یہ طرز عمل بیعت میں کسی طعن یا اس کی شرعی حیثیت کو کم کرنے کی کوئی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ ہر شہر اور ہر علاقہ سے سارے مسلمانوں کو اکٹھا کرنا ایک مشکل ترین کام تھا، جب کہ ملک کے لیے کسی حاکم کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ انسانوں کی مصلحتیں اور ان کا نظام معاشرت معطل نہ ہونے پائے۔ مزید برآں دوسرے شہروں کے باشندوں نے سیّدناابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت خلافت کے بارے میں مدینہ میں جو فیصلہ ہوا اس کی تائید بھی کی، بعض کی تائید صراحتاً اور بعض کی ضمناً رہی۔ بلاشبہ ابتدائے اسلام میں لوگوں نے (ملک اور ملکی سالمیت کے لیے) جو اسلوب اپنایا وہ سب ایسے تجربات تھے جو ملک اور اس کے اداروں کی ترقی کی راہ میں مستحکم لائحہ عمل ہیں۔ [1] ۱۱: عورت اور بیعت کا مسئلہ: بحث وجستجو کے دوران میں مجھے ایسا کوئی اشارہ نہ ملا کہ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بلکہ خلفائے راشدین کے دور میں کسی عورت نے بیعت کی ہو اور میرے محدود علم کے مطابق قدیم سے قدیم کوئی بھی شرعی سیاست کی کتاب اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتی کہ بیعت عورت کا حق ہے یا وہ اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ کے تمام ادوار میں بیعت (خلافت) عورتوں کو چھوڑ کر صرف مردوں تک محدود رہی، نہ تو مردوں نے عورت کو اس کے لیے بلایا اور نہ ہی عورتوں نے اس کا مطالبہ کیا۔ بیعت سے عورت کی عدم موجودگی کو اس حد تک ایک فطری عمل قرار دیا گیا کہ اسلامی دستوری حقوق کے علماء نے کم وبیش کسی بھی موقع پر اس کی طرف اشارہ تک نہیں کیا ہے، جب کہ تاریخی وفقہی اعتبار سے یہ چیز شرعی حکم کی حقیقت میں کسی بھی تبدیلی کا سبب نہیں بنتی۔ چنانچہ قرآنِ کریم اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں … جب کہ وہ دونوں شریعت کے بنیادی مصادر میں سے ہیں … کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو عورتوں کو مردوں کے ساتھ بیعت کرنے سے منع کرے۔[2]
[1] الخلفاء الراشدون، ص: ۱۲۳ [2] السنن الالٰہیۃ فی الامم والجماعات والأفراد، زیدان، ص: ۲۸۲ [3] الادارۃ الإسلامیۃ فی عہد عمر بن الخطاب، ص: ۱۰۷