کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 162
لیے مغفرت کا طالب ہوں۔‘‘ [1] اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’عرب والوں کی مثال نکیل زدہ اونٹ کی طرح ہے جو ا پنے قائد کے تابع ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے قائد کو دیکھنا چاہیے جہاں وہ جاتا ہے اس کے پیچھے جائیں اور میں تو اللہ کی قسم لوگوں کو سیدھے راستہ پر ہی لے کر جاؤں گا۔‘‘ [2] منصب خلافت سنبھالنے کے بعد خطبۂ فاروقی کے بارے میں وارد شدہ ان تمام روایات سے آپ کے نظام حکومت کا ایسا منشور سامنے آتا ہے جس سے ہٹ کر چلنے کی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہیں ہے۔ آپ کے نظام حکومت کے نمایاں خدوخال کچھ اس طرح ہیں: ۱: آپ خلافت کو ایک آزمائش سمجھتے تھے کہ جس سے آپ آزمائے گئے ہیں اور یہ کہ اس کے حق کی ادائیگی سے متعلق آپ کا محاسبہ کیا جائے گا۔ گویا حکومت خلفائے راشدین کی نگاہ میں عظمت، شرافت، اور بلندی کی چیز نہیں بلکہ وہ ایک عظیم ذمہ داری، فریضہ الٰہی اور آزمائشِ ربانی تھی۔ ۲: آپ کی نگاہ میں منصب خلافت کا یہ تقاضا ہے کہ ملکی ذمہ داریوں سے متعلق جو معاملات بھی آپ کے سامنے آئیں انہیں آپ خود حل کریں اور رعایا پر جو آپ سے دور ہیں بہترین وباصلاحیت امراء اور گورنر مقرر کریں، تاہم آپ کی نگاہ میں اللہ کے سامنے جواب دہی اور اپنی ذمہ داری سے سبکدوشی کے لیے صرف اتنا کرنا کافی نہیں تھا، بلکہ آپ کا کہنا تھا کہ ان گورنروں اور حکام کی سخت نگرانی کرنا ایک ایسی ذمہ داری ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اسی وجہ سے ان میں سے جس نے بہتر کام کیا آپ نے اس کے ساتھ احسان کیا اور جس نے آپ کی مرضی کے خلاف کیا اس کی آپ نے گرفت کی اور سزا دی۔ [3] اس موضوع پر تفصیلی بحث ’’گورنروں کا نظام اور اس کی ترقی میں فقہ فاروقی کا کردار‘‘ کے زیر عنوان آرہی ہے۔ ۳: عمر رضی اللہ عنہ کی سختی جس سے لوگ خوفزدہ ہیں وہ ان کے لیے خالص نرمی اور مہربانی میں بدل دیں گے اور ان کے لیے عدل وانصاف کا میزان قائم کریں گے اور جس نے ظلم وزیادتی کی اسے سخت سزا ملے گی اور رسوائی اس کے ہاتھ آئے گی۔ ’’کسی ظالم کو کسی پر ظلم اور سرکشی کرتے ہوئے نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ اس کا رخسار زمین سے رگڑ دوں گا‘‘ البتہ جس نے میانہ روی، دین داری اور پاک دامنی کو ترجیح دی وہ بے انتہا
[1] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، د/ حمدی شاہین، ص: ۱۲۰