کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 161
جس نے خطبہ کے جس حصے کو سنا اسے روایت کیا اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اوّل خطبہ میں آپ نے سیاسی، اداری اور دینی وعظ ونصیحت کو ایک ساتھ بیان کیا ہو، خلفائے راشدین کا یہی طریقہ رہا ہے، انہوں نے اللہ سے تقویٰ نیز اس کے حکم اور انسانوں کی سیاست کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ کے لیے یہ بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ آپ اپنے سلف عظیم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقام ومرتبہ کی پوری رعایت کرتے ہوئے ان کی جگہ پر نہ بیٹھے ہوں کہ کہیں لوگوں کی نگاہ میں آپ ان کے برابر نہ سمجھے جائیں۔ اسی خیال کے پیش نظر سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنا محاسبہ کیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جگہ سے نیچے اتر آئے۔ [1] دوسری روایت کے مطابق آپ نے خلیفہ بنائے جانے کے دو دن بعد لوگوں سے اپنی تند مزاجی اور سخت گیری کے بارے میں سوچا اور کہا کہ اپنے بارے میں لوگوں کے شکوک وشبہات خود ہی دور کردینا ضروری ہے۔ چنانچہ آپ منبر پر تشریف لائے، لوگوں کو مخاطب کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نیز ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی صحبت اور معاملات کا ذکر کیا اور بتایا کہ کس طرح ان سے راضی وخوشی ہونے کی حالت میں وہ دونوں اس دنیا سے رخصت ہوئے، پھر فرمایا: ’’… اے لوگو! میں تمہارے معاملات کا حاکم بنایا گیا ہوں، جان لو کہ (میری) سختی دوگنی ہوگئی ہے لیکن وہ ظلم وزیادتی کرنے والوں کے لیے ہے، جان لو میں کسی کو کسی پر ظلم کرتے ہوئے یا سرکشی کرتے ہوئے نہیں چھوڑوں گا، میں ظالم کے ایک رخسار کو زمین پر اور دوسرے رخسار پر پاؤں رکھوں گا یہاں تک کہ وہ حق کے تابع ہوجائے اور اس سختی کے بالمقابل شرفاء اور نیکوکاروں کے لیے اپنا رخسار زمین پر رکھنے کو تیار ہوں۔ اے لوگو! مجھ پر تمہارے کچھ حقوق ہیں، جسے میں تمہیں بتا رہا ہوں اسے تم مجھ سے لے لو، تمہارا مجھ پر حق یہ ہے کہ تمہارے خراج میں سے کوئی بھی چیز میں اپنی پسند سے نہ لوں اور نہ اس مال سے لوں جو اللہ نے تم کو بطور غنیمت دیا ہے، مگر اس کی رضامندی کے لیے۔ اور مجھ پر تمہارا یہ حق بھی ہے کہ جب کوئی مال میرے ہاتھ میں آئے تو وہ جائز مقام پر ہی خرچ ہو اور اگر اللہ چاہے تو تمہارے وظائف اور عطیات کو بڑھا دوں، سرحدوں کو بند کردوں، تمہیں خطرات میں نہ ڈالوں اور لمبی مدت تک اہل وعیال سے تم کو دور کرکے جنگی مورچہ پر باقی نہ رکھوں، اور جب تم جنگ پر چلے جاؤ تو میں اہل وعیال کا محافظ رہوں، یہاں تک کہ تم ان کے پاس لوٹ آؤ۔ پس اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو، اور اپنے نفوس کے بارے میں اسے مجھ سے روک کر میری مدد کرو اور بھلائی کا حکم دے کر، برائی سے روک کر اور اپنے متعلق میری ذمہ داری سے مجھے آگاہ کرکے میری مدد کرو۔ انہی کلمات پر اپنی بات ختم کرتا ہوں اور اللہ سے اپنے لیے اور تمہارے
[1] مناقب أمیر المومنین، ابن الجوزی، ص: ۱۷۰، ۱۷۱ [2] الطبقات، ابن سعد: ۳/ ۲۷۵ [3] کنز العمال، حدیث نمبر: ۴۴۲۱۴ بحوالہ الدولۃ الإسلامیۃ، د/ حمدی شاہین، ص: ۱۲۰