کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 159
ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے انتخاب اور عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں آپ کے عہد نامہ خلافت کی تنفیذ پر متفق تھے۔ [1] * امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے متعلق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے )عہد لیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی بیعت کی اور پھر ان کی بیعت کے ذریعہ سے جب آپ کو قوت وسلطنت مل گئی تو ان کے امام ہوئے۔ [2] * شارح عقیدۃ طحاویہ علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں ثابت ہوگئی، بایں طور کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلافت ان کو سونپ دی اور آپ کے بعد امت نے اس پر اتفاق کرلیا۔ [3] مذکورہ تمام حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اجماع واتفا ق سے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی خلافت عمل میں آئی۔ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ عہد نامہ خلافت کو خوشی خوشی قبول کیا، کسی نے اس میں اختلاف نہ کیا۔ اسی طرح جس چیز پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاق کیا اسی پر اہل سنت و الجماعت کا بھی اجماع واتفاق ہے اور کسی نے اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں کیا ہے، سوائے ان لوگوں کے جن کے اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ایسے لوگ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عداوت میں مبتلا ہیں جیسے کہ روافض شیعہ اور وہ افراد جو ان کی سازشوں کا شکار ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی شخص ابن سعد وغیرہ کے حوالے سے مذکورہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع پر یہ اعتراض کرے کہ عبدالرحمن بن عوف اور عثمان رضی اللہ عنہما ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تھے اور کہا تھا کہ آپ عمر کی سختی کو جانتے ہیں، پھر بھی ان کو ہم پر خلیفہ مقرر کر رہے ہیں۔ اس بارے میں جب آپ کا ربّ آپ سے پوچھے گا تو آپ کیا جواب دیں گے؟ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: مجھے بٹھاؤ، کیا تم مجھے اللہ کا خوف دلاتے ہو؟ … جس نے تمہارے معاملے میں ظلم سے کام لیا وہ سخت خسارے میں ہوا … میں کہوں گا: اے اللہ میں نے ان پر تیرے سب سے بہتر بندے کو خلیفہ بنایا ہے، جو بات میں نے تم سے کہی ہے یہی بات بقیہ لوگوں کو بھی بتا دو۔‘‘[4] تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ان کا انکار … اگر اسے انکار مان لیں … اس بات سے نہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہی امت کے افضل ترین فرد اور خلافت کے مستحق ہیں، بلکہ وہ آپ کی سختی اور خشک زندگی سے ڈرتے تھے، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کی قوت وامانت پر تہمت نہ لگائی تھی۔[5]
[1] الاعتقاد، البیہقی، ص: ۱۸۸ [2] کتاب الامامۃ والرد علی الرافضۃ، ص: ۲۷۴ [3] عقیدۃ السلف وأصحاب الحدیث ضمن مجموعۃ الرسائل المنبر یۃ: ۱/ ۱۲۹