کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 150
پر ہر ایک سے پوچھا اور جب عمر رضی اللہ عنہ پر اتفاق رائے کا رجحان محسوس کیا تو عمر رضی اللہ عنہ کی نامزدگی کا اعلان کردیا۔ اس طرح امت مسلمہ کی اہم ترین شخصیتوں سے رائے اور مشورہ لینے اور صحیح نقطہ نظر کی تلاش وجستجو کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو نامزد کیا، اور اس نامزدگی کی شرعی حیثیت اس وقت تک مفقود رہی جب تک کہ امت مسلمہ نے اسے قبول نہ کیا۔ کیونکہ حاکم وقت کو منتخب کرنا امت کا حق ہے۔ خلیفہ زیادہ سے زیادہ امت کی طرف سے وکالت کرسکتا ہے۔ لہٰذا اصل حق داروں کی رضامندی ضروری ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اسی لیے امت مسلمہ سے مخاطب ہوئے اور کہا: کیا میں تم پر جس کو خلیفہ بناؤں تم اس پر راضی ہو؟ کیونکہ اللہ کی قسم میں نے لوگوں سے مشورہ کرنے میں ادنیٰ کوتاہی بھی نہیں کی ہے اور نہ کسی قرابت دار کو تم پر حاکم بنایا ہے۔ بلکہ میں نے عمر بن خطاب کو تم پر خلیفہ مقرر کیا ہے۔ تو تم ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جواب دیا: ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ [1] آپ کا یہ کہنا کہ ’’کیا میں تم پر جس کو خلیفہ بناؤں تم اس پر راضی ہو؟‘‘ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ انتخاب خلافت کا معاملہ امت کا حق ہے، اور یہ چیز اس اُمت کے ساتھ خاص ہے۔ [2] بلاشبہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اہل حل وعقد کے مشوروں اور ان کے ارادوں کے اتفاق سے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی، لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو انتخاب خلیفہ کی ذمہ داری سونپ دی اور آپ کو اس معاملے میں اپنا نائب مقرر کردیا۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مشورہ کیا اور خلیفہ متعین کردیا۔ پھر اس تعیین کو لوگوں کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے اس کا اقرار کیا، اسے قبول کیا اور اس پر اظہار رضا مندی کیا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ امت کے اصحاب حل وعقد ہی اس امت کے ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ اس طرح گویا سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ مقرر کیا جانا شورائیت کے صحیح ترین اور عادلانہ اسلوب کے بالکل موافق تھا۔ [3] سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے انتخاب کے لیے جو لائحہ عمل اختیار کیا وہ کسی بھی صورت میں شورائیت کے منافی نہیں ہے، اگرچہ عمر رضی اللہ عنہ کو بحیثیت خلیفہ منتخب کرنے میں جو کارروائی کی گئی وہ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بحیثیت خلیفہ منتخب کرنے میں نہ کی گئی تھی۔ [4] بہرحال خلافت فاروقی شورائیت اور اتفاق رائے سے منعقد ہوئی، نیز تاریخ اس بات پر خاموش ہے کہ آپ کی خلافت کے بارے میں کوئی اختلاف واقع ہوا ہو، یا آپ کی طویل مدت خلافت میں کسی نے آپ کی خلافت کے خلاف بغاوت کی ہو۔ بلکہ آپ کی خلافت اور مدت خلافت میں آپ کی اطاعت پر اجماع تھا اور سب ایک وحدت کی شکل میں تھے۔ [5]
[1] دراسات فی عہد النبوۃ والخلافۃ الراشدۃ، الشجاع، ص: ۲۷۲ [2] صفۃ الصفوۃ: ۱/ ۲۶۴۔ ۲۶۵ [3] دراسات فی عہد النبوۃ والخلافۃ الراشدۃ، الشجاع، ص: ۲۷۲ [4] القیود الواردۃ علی سلطۃ الدولۃ فی الاسلام، ص:۱۷۲