کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 146
ان کو سب سے بہتر جانتا ہوں، خوشی کے موقع پر خوش ہوتے ہیں اور ناراضگی کے موقع پر ناراض ہوتے ہیں، ان کا باطن ظاہر سے زیادہ بہتر ہے، اس ذمہ داری کو اٹھانے کا ہل ان سے زیادہ مناسب کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے۔ اسی طرح آپ نے سعید بن زید اور متعدد انصار ومہاجرین سے عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مشورہ کیا، طلحہ بن عبید اللہ کے علاوہ تقریباً سب کی رائے یکساں تھی۔ طلحہ آپ کی سخت گیری سے ڈرتے تھے اور اسی لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: عمر کی سخت مزاجی کو جاننے کے باوجود ان کو ہمارا خلیفہ نامزد کرنے کے بارے میں جب آپ سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا تو آپ کیا جواب دیں گے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے بٹھا دو، کیا مجھے اللہ سے خوف دلاتے ہو؟ وہ شخص رسوا ہوا جو تمہارے معاملے میں ظلم کی راہ اپنائے۔ میں کہوں گا: اے اللہ ان پر میں نے تیرے سب سے بہتر بندے کو خلیفہ مقرر کیا۔ [1]پھر آپ نے لوگوں کو عمر رضی اللہ عنہ کی سختی کا سبب بتایا اور فرمایا: وہ اس لیے سخت تھے کہ مجھے جانتے تھے کہ میں نرم طبیعت کا ہوں۔ اگر خلافت کا معاملہ ان کو سونپ دیا جائے گا تو نرم پڑ جائیں گے اور بہت سی سختیوں کو چھوڑ دیں گے۔ [2] پھر آپ نے ایک عہد نامہ لکھا جسے امرائے لشکر کے ذریعہ سے مدینہ میں مہاجرین اور انصار کو پڑھ کر سنایا گیا، وہ عہد نامہ یہ تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم ابوبکر بن ابوقحافہ کی طرف سے یہ عہد نامہ ہے جسے اپنی دنیوی زندگی کے آخری وقت میں دنیا چھوڑتے ہوئے اور اخروی زندگی کے آغاز سے اس میں داخل ہوتے ہوئے لکھا ہے، جس وقت کافر ایمان لاتا ہے، فاجر یقین اور جھوٹا تصدیق کرنے لگتا ہے، میں نے اللہ، اس کے رسول، اس کے دین، اپنی ذات اور تمہارے لیے خیر خواہی سے متعلق فروگزاشت نہیں کی ہے۔ پس اگر انہوں نے عدل وانصاف سے کام لیا تو یہی میرا گمان اور میرا علم ہے اور اگر اس سے ہٹ گئے تو ہر انسان کو اس کی کمائی کا بدلہ ملے گا۔ میں نے خیر کی نیت کی ہے غیب کو نہیں جانتا۔ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ (الشعراء: ۲۲۷) ’’اور عنقریب وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا، جان لیں گے کہ وہ لوٹنے کی کون سی جگہ لوٹ کر جائیں گے۔‘‘ خلافت کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کی نامزدگی امت کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آخری خیر خواہی تھی۔ چونکہ آپ نے رنگین دنیا کی آمد اور اپنی قوم کی قدیم فاقہ کشی کو پہچان لیا تھا اس لیے آپ کو خوف تھا کہ جب وہ اسے دیکھیں تو مبادا اس کی رنگینیوں کے تابع نہ ہوجائیں، پھر وہ ان پر ظلم کرنے لگے کیونکہ یہی وہ چیز تھی جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں خوف دلایا تھا۔ [3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/ ۱۸۔ تاریخ الطبری: ۴/ ۲۳۸