کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 145
(۱) سیّدناابوبکر رضی اللہ عنہ کا عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نامزد کرنا اور آپ کے نظام حکومت کے اصول خلافت کے لیے نامزدگی: جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیماری میں اضافہ ہوگیا تو آپ نے لوگوں کو اپنے پاس جمع کیا اور کہا: میری جو حالت ہے جسے تم دیکھ رہے ہومیں قریب الموت ہوں۔ اللہ نے میری بیعت سے متعلق تمہاری قسموں کو پورا کردیا، تم سے میرے عقد بیعت کو کھول دیا اور تمہارا معاملہ تمہارے حوالے کردیا، لہٰذا تم جسے پسند کرو اپنا امیر منتخب کرلو، اس لیے کہ اگر تم میری زندگی ہی میں اپنا امیر بنا لو تو یہ زیادہ مناسب ہے، ایسا نہ ہو کہ میرے بعد تم اختلاف کرلو۔ [1] پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپس میں مشورہ کیا، ان میں سے ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ اس ذمہ داری سے خود کو دُور رکھے اور جو اس کی صلاحیت رکھتا ہو اور اس کا اہل ہو اسے یہ کام سونپ دیا جائے۔ چنانچہ بالآخر وہ سب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: اے خلیفہ رسول! ہماری رائے وہی ہوگی جو آپ کی رائے ہوگی۔ آپ نے فرمایا: تو مجھے موقع دو تاکہ میں اللہ، اس کے دین اور اس کے بندوں کے بارے میں غور کرلوں ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے کہا: عمر بن خطاب کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جس چیز کے بارے میں آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں اس کے بارے میں مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگرچہ میں جانتا ہوں، پھر بھی؟ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم ! وہ اس معاملہ میں آپ کی رائے سے بھی زیادہ بہتر ہیں۔ پھر آپ نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا: عمر بن خطاب کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: آپ ان کے بارے میں زیادہ واقف ہیں، آپ نے فرمایا: بات واضح کرو، اے ابوعبداللہ! عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے علم کے مطابق ان کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کا کوئی جواب نہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے، اللہ کی قسم! اگر میں عمر کو خلافت کے لیے نامزد نہ کرتا تو تم سے تجاوز نہ کرتا یعنی تمہیں خلافت کے لیے نامزد کرتا۔ پھر آپ نے اسید بن حضیر کو بلایا اور ان سے بھی اسی طرح کی بات کہی، تو اسیدؓ نے کہا: آپ کے بعد میں