کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 142
میں مصلحت مرسلہ کے تحت قرآن جمع کیا گیا تھا لیکن بعد میں اس پر صحابہ کا اجماع ہوگیا، جبکہ تمام لوگوں نے صراحتاً یا ضمناً اس کی تائید کی۔ یہاں یہ واقعہ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ جو لوگ مصلحت مرسلہ کے قائل ہیں ان کے نزدیک (یہ اُصول)اجماع کے لیے دلیل بن سکتا ہے۔ جیسے کہ اصول فقہ میں یہ چیز ثابت ہے۔ ۳: اس واقعہ سے ہمارے سامنے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کس قدر پر سکون ماحول میں وہ اجتہاد کرتے تھے جس میں محبت واحترام کا پہلو غالب ہوتا تھا، اس نکتہ تک پہنچنا ان کا مقصد ہوتا تھا کہ جو تمام مسلمانوں کے فائدہ مند ہو۔ وہ صحیح مشورہ کو فوراً تسلیم کر لیتے اور دوسروں کو مطمئن کرنے کے بعد ان کو شرح صدر ہوجاتا تھا اور جب کسی رائے پر متفق ہوجاتے تو اس پر ہونے والے اعتراض کا ردّ کرتے، جیسے کہ ان کی شروع ہی سے یہی رائے تھی اور اسی اخلاص وروحانیت کی بنا پر بہت سے اجتہادی مسائل میں ان کا اجماع منعقد ہوا۔ [1] 
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۴۹۸۶ [2] ایسا وصف کہ جس پر شارع نے نہ اعتبار کی مہر ثبت کی ہو اور نہ الغاء وتردید کی ہو، بلکہ وہ مصلحت ومنفعت کے تئیں بے قید ہو۔ (مذکرۃ أصول الفقہ/ الشنقیطی)