کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 140
ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر دوسرے مسلمانوں کو چھوڑ کر یہ زمین ان دونوں کے لیے خاص کیوں کر دی؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ لوگ جو میرے اردگرد ہیں ان سے مشورہ لیا اور انہوں نے مجھے اجازت دے دی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب آپ نے اپنے اردگرد کے لوگوں سے مشورہ لیا تو سارے مسلمانوں کو بھی مشورہ اور اظہار رضامندی کا حق ہے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کہا تھا کہ آپ اس خلافت کے لیے مجھ سے زیادہ قوی ہیں لیکن آپ مجھ پر غالب آگئے۔ [1] بلاشبہ یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں اسلامی مملکت کا نظام شورائیت پر قائم تھا، یہ واقعہ ہمارے سامنے واضح دلیل ہے کہ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر چھوٹی بڑی چیز سے متعلق کس طرح مسلمانوں سے مشورہ لینے کے حریص تھے اور اپنے بھائیوں کے مشورہ کے بغیر کسی کام کا فیصلہ نہ کرتے تھے۔ [2] بے شک مذکورہ واقعہ ہمارے لیے ٹھوس دلیل ہے کہ خلیفہ رسول مسلمانوں کے تمام تر معاملات میں مشاورت کو مقدم رکھتے تھے بلکہ اپنی رائے سے پیچھے ہٹ جاتے تھے، جب کہ ان کا کتنا اونچا مقام تھا۔ رضی اللہ عنہ ۔ حلال وحرام کی معرفت کے ساتھ احکام الٰہیہ سے مربوط حقیقی شورائیت کی یہ سچی تصویر ہے، یہ رنگ وروغن کی ہوئی وہ شورائیت نہیں ہے جو دستور ساز مجالس کے خیموں میں رچائی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں آج تک امت مسلمہ نے تلخیاں، مظالم اور بربادی کے سوا کچھ نہ پایا۔ [3] قرآنِ کریم کو جمع کرنا: جنگ یمامہ میں مسلمان شہداء میں ان شہیدوں کی تعداد زیادہ تھی جو قرآن کے حافظ تھے، اس کے نتیجے میں سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے قرآن جمع کرنے کا حکم دیا اور اسے چمڑے کے ٹکڑوں، ہڈیوں، کھجور کی شاخوں اور لوگوں کے سینوں سے لے کر یکجا کیا گیا۔ [4] ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ عظیم کام بزرگ صحابی زید بن ثابت انصاریؓ کو سونپا، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ یمامہ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا، آپ کے ساتھ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ کے موقع پر بہت سارے قراء وحفاظ شہید کردیے گئے اور مجھے خوف ہے
[1] أخبار عمر، ص:۳۶۲ بحوالہ الریاض النضرۃ۔ نیل الأوطار: ۸/۲۲