کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 137
لیکن معاذ رضی اللہ عنہ نے بھی عمر رضی اللہ عنہ کی نصیحت کو ٹھکرانے کے بعد پھر غور کیا اور آپ کے پاس یہ کہتے ہوئے حاضر ہوئے کہ میں آپ کی بات مانتا ہوں اور آپ نے مجھے جو حکم دیا ہے میں اسے پورا کروں گا۔ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں گہرے پانی میں ہوں اور ڈر ہے کہ کہیں ڈوب نہ جاؤں، تو اے عمر! آپ نے مجھے اس سے بچا لیا۔ پھر معاذ رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے بھی پورا واقعہ ذکر کیا اور ان سے قسم کھائی کہ آپ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھوں گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں کچھ نہیں لوں گا، وہ سب تم کو میں نے بطور عطیہ دے دیا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ اس وقت ہوا جب انہوں نے اپنی بات چھوڑ دی اور دل سے راضی ہوگئے۔ [1] ایک اور روایت میں ہے کہ ابوبکرؓ نے معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: اپنا حساب چکا لو، تو معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا دو حساب (چکاؤں)، ایک اللہ تعالیٰ کا حساب اور دوسرا تمہارا حساب؟ اللہ کی قسم! ۲: ابومسلم خولانی کے بارے میں آپ کی سچی فراست: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ فراست سے نوازے گئے تھے، دور حاضر میں اس کا وجود نادر ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اسود عنسی نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا، اس نے ابومسلم خولانی کو بلایا اور خوب آگ جلائی پھر اس میں ابومسلم آگ میں کو ڈال دیا، لیکن ان کو کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ اسود عنسی سے کہا گیا کہ اگر تم نے ابو مسلم کو اپنے پاس سے نہیں بھگایا تو تمہارے ماننے والے تم پر بگڑ جائیں گے۔ اس نے ابومسلم کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ وہ مدینہ آئے اور اپنی سواری کو بٹھایا، مسجد میں داخل ہوئے۔ آپ (عمر رضی اللہ عنہ ) نے انہیں دیکھ لیا، ان کی طرف بڑھے اور پوچھا: آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ انہوں نے کہا: یمن سے۔ آپ نے پوچھا: اس آدمی کا کیا ہوا جس کو جھوٹے (نبی) نے آگ میں ڈلوا دیا؟ انہوں نے جواب دیا: وہ تو عبداللہ بن ثوب ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم کو اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں کہ وہ تم ہی ہو؟ انہوں نے جواب دیا: ’’اللہم نعم‘‘ ہاں، یقینا میں ہی ہوں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو گلے لگا لیا اور رونے لگے۔ پھر ان کو اپنے ساتھ لے گئے اور اپنے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کے درمیان بٹھایا اور کہا: ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، جس نے مجھے موت نہیں دی، یہاں تک کہ میں نے امت محمدیہ میں اس فرد کو دیکھ لیا جس کے ساتھ اسی طرح کیا گیا جس طرح ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے ساتھ کیا گیا تھا۔[2] ۳: بحرین کے لیے ابان بن سعید کی نامزدگی پر آپ کی رائے: سیّدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امراء (گورنروں) کی تقرری میں شورائیت کا طرز عمل اختیار کیا تھا، چنانچہ
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۶۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۶