کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 129
(( قُوْمُوْا عَنِّیْ وَلَا یَنْبَغِیْ عِنْدِیْ التَّنَازُعُ۔)) ’’میرے پاس سے چلے جاؤ، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل گئے: سب سے بڑی مصیبت یہ ہوئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے اور لکھنے کے درمیان حائل ہوئی۔ [1] علماء نے اس حدیث پر خوب سیر حاصل بحث کی ہے، امام نووی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح مسلم کی شرح میں اس حدیث پر طویل بحث کی ہے۔ فرماتے ہیں: تم جان لو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ سے اور اس بات سے معصوم ہیں کہ اپنی بیماری یا تندرستی کے ایام میں شرعی احکام میں کچھ ردو وبدل کیا ہو اور اس بات سے بھی معصوم ہیں کہ جن چیزوں کے بیان کا آپ کو حکم دیا گیا تھا یا جن احکام کی تبلیغ آپ پر واجب تھی ان میں سے کسی کو آپ نے چھوڑ دیا ہو۔ البتہ آپ جسمانی امراض و عوارض سے معصوم نہ تھے اور اس سے آپ کے مقام نبوت میں کوئی فرق اور آپ کی لائی ہوئی شریعت میں کوئی بگاڑ لازم نہیں آتا، یہاں تک کہ آپ کو جادو کر دیا گیا، آپ خیال کرتے کہ آپ نے یہ کرلیا ہے حالانکہ اسے نہیں کیے ہوتے، تاہم ایسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی بات صادر نہ ہوئی جو ثابت شدہ شرعی احکام کے خلاف ہو۔ جب آپ نے یہ بات جان لی تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تحریر نامہ لکھنے کا ارادہ کیا تھا اس سے کیا مراد ہے، اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے یہ ارادہ کیا تھا کہ خلافت کے لیے کسی کو نامزد کردیں تاکہ اس کے بارے میں کوئی فتنہ اور جھگڑا نہ ہو۔ اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آپ نے شروع میں یہ مصلحت سمجھی یا شاید وحی کا نزول ہوا ہو کہ اسلام کے اہم احکامات کو اختصار کے ساتھ ایک کتاب میں تحریر کردیں تاکہ بعد میں ان میں نزاع نہ ہو۔ پھر آپ نے مصلحت اس میں سمجھی کہ اسے چھوڑ دیا جائے یا دوسری صورت میں اگر وحی کی گئی تو پہلا حکم منسوخ کر دیا گیا اور درمیان میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بولنے کے سلسلہ میں شارحین علماء حدیث متفق ہیں کہ برموقع آپ کی گویائی آپ کی دینی بصیرت، عظیم فضیلت اور بالغ نظری کی دلیل ہے۔ اس لیے کہ آپ نے خوف محسوس کیا کہ مبادا آپ ایسی باتیں لکھ دیں جنہیں وہ نہ کرسکیں اور پھر اس پر سزا کے مستحق ہوں، کیونکہ وہ منصوص چیز ہوگی، اس میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہ ہوگی۔ بہت بہتر ہوا کہ آپ نے کہا: (( حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ)) ’’ہمارے لیے کتابِ الٰہی کافی ہے۔‘‘
[1] صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبیؐ، حدیث نمبر: ۳۶۹۳۔ [2] سنن أبی داؤد، حدیث نمبر: ۴۶۶۰۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔