کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 128
تعریف کی پھر کہا: ’’ اللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ‘‘ یعنی اللہ ہی مددگار ہے۔ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور مرض الموت کے متعلق سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا موقف: ۱: عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو بلال آپ کے پاس آئے اور نماز کے لیے بلانے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مُرُوْا مَنْ یُّصَلِّیْ بِالنَّاس۔)) ’’کہہ دو کوئی لوگوں کو نماز پڑھا دے۔‘‘ عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں کہ میں نکلا، لوگوں میں عمر نظر آئے اور ابوبکر غائب تھے۔ میں نے کہا: اے عمر! اٹھیے اور لوگوں کو نماز پڑھایے۔ چنانچہ وہ کھڑے ہوئے اور جب اللہ اکبر کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی آواز سن لی … عمر رضی اللہ عنہ کی آواز بلند تھی … آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( فَأَیْنَ أَبُوْبَکْرٍ؟ یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُوْنَ، یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُوْنَ۔)) ’’ابوبکر کہاں ہیں؟ اللہ اور مسلمان اس کا انکار کرتے ہیں، اللہ اور مسلمان اس کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلایا، آپ اس وقت آئے جب کہ عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو وہ نماز پڑھا چکے تھے، پھر آپ نے نماز پڑھائی۔ عبداللہ بن زمعہ کا بیان ہے کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: تیرا بُرا ہو! اے ابن زمعہ تم نے میرے ساتھ کیا کیا؟ اللہ کی قسم جب تم نے مجھے (امامت کا) حکم دیا تھا تو میں نے یہی گمان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کام کا حکم دیا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں لوگوں کو نماز نہ پڑھاتا۔ عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے، میں نے کہا: اللہ کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا حکم نہیں دیا تھا، لیکن جب میں نے ابوبکر کو نہیں دیکھا تو حاضرین میں آپ ہی کو امامت کا زیادہ حق دار سمجھا۔ [2] اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (مرض الموت میں) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف بڑھی تو آپ نے فرمایا: (( اِئْتُوْنِیْ بِکِتَابٍ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ۔)) ’’مجھے سامان کتابت دو، میں تمہارے لیے (ایک تحریر)لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول سخت تکلیف سے دوچار ہیں، ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے جو ہمیں کافی ہے! پھر وہ سب اختلاف کربیٹھے اور بہت شور شرابہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۳۹۵ [2] عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ: ۱/ ۲۴۵ [3] الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان: ۱۵/ ۲۰۹۔ صحیح البخاری، باب غزوۃ ذات السلاسل حدیث نمبر: ۴۱۰۰۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۳۸۴