کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 109
اٹھ کھڑے ہوئے، سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل گیا اور بنو نجار انصاری کے باغ کے پاس آیا، میں اس کے چاروں طرف گھوما لیکن اس کا کوئی دروازہ نہیں پایا، لیکن ایک نالی نظر آئی جو باہر کے کنویں سے باغ کے بیچ میں جا رہی تھی۔ میں نے داخل ہونے کے لیے خود کو لومڑی کی طرح سمیٹ لیا اور اندر داخل ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوہریرہ؟ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فَمَا شَأنُکَ؟‘‘، ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے کہا: آپ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے، پھر آپ اچانک اٹھ گئے اور واپس آنے میں تاخیر کی، تو ہم ڈر گئے کہ مبادا کہیں آپ ہم لوگوں کی عدم موجودگی میں غائب نہ کر دیے جائیں۔ ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا۔ میں اس باغ کے پاس آیا، اور لومڑی کی طرح خود کو سمیٹ کر یہاں پہنچا ہوں اور لوگ میرے پیچھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ! … اور مجھے اپنے دونوں جوتے دیے … ((اِذْہَبْ بِنَعْلَیَّ ہَاتَیْنِ ، فَمَنْ لَقِیْتَ مِنْ وَّرَائِ ہٰذَا الْحَائِطِ یَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُسْتَیْقِنًا بِہَا قَلْبُہٗ فَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ۔))…’’میرے ان دونوں جوتوں کو لے جاؤ اور اس باغ کے پیچھے جو شخص بھی ایسا ملے کہ دل کی سچائی سے یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، تو اسے جنت کی بشارت دے دو۔‘‘ چنانچہ میری ملاقات سب سے پہلے عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ انہوں نے کہا: اے ابوہریرہ! یہ دونوں جوتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا: یہ دونوں جوتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ آپ نے اسے دے کر مجھے بھیجا ہے کہ ایسے جس آدمی سے ملو جو دل کی سچائی سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں اسے میں جنت کی بشارت دے دوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے میرے سینے پر مارا اور میں سرین کے بل گر گیا اور انہوں نے کہا: اے ابوہریرہ! لوٹ جاؤ۔ میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پھوٹ پھوٹ کر روپڑا اور عمر بھی میرے پیچھے ہی آئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَالَکَ یَااَبَاہُرَیْرَۃَ؟))…’’اے ابوہریرہ! تم کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: میں عمر سے ملا اور جو بات کہہ کر آپ نے بھیجا تھا میں نے انہیں وہ بات بتائی[1] تو انہوں نے میرے سینے پر اتنے زور سے مارا کہ میں پیچھے کے بل گر پڑا، اور انہوں نے کہا: لوٹ جاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا عمر ما حملک علی ما فعلت؟ ’’اے عمر! تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے اپنے دونوں جوتے دے کر ابوہریرہ کو بھیجا ہے کہ وہ ایسے جس آدمی سے بھی ملیں جو دل کی سچائی سے گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، اسے جنت کی بشارت دے دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ آپ نے کہا: ایسا نہ کیجیے، مجھے خوف ہے کہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہو کر اسی پر بھروسہ نہ کرلیں اور عمل چھوڑ دیں، آپ ان کو عمل کرنے دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فَخَلِّہِمْ‘‘ یعنی تب انہیں چھوڑ دو۔[2]
[1] احمد شاکر کی تحقیق سے مطبوعہ نسخہ میں ’’رباتہن‘‘ ہے۔ [2] اس کی سند صحیح ہے، اور شیخین کی شرط پر ہے۔ مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۸۵ کاش مولف یہاں صحیحین میں وارد الفاظ کو نقل کردیتے۔ (مترجم)