کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 108
اسے دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھتا ہے۔‘‘ اس نے کہا: قیامت کب ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَا الْمَسْؤلَ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ۔)) ’’جس سے پوچھا گیا ہے وہ اس سلسلہ میں پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘ اس نے کہا: اس کی نشانیاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: (( إِذَا الْعَرَاۃُ الْحُفَاۃُ الْعَالَۃُ رِعَائُ الشَّائِ تَطَاوَلُوْا فِی الْبُنْیَانِ وَوَلَدَتِ الْاِمَائُ أَرْبَابِہِنَّ۔)) [1] ’’جب ننگے جسم، ننگے پاؤں والے، فقیر ونادار اور بکریوں کے چرواہے بلند عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں اور لونڈیاں اپنے مالک کو جننے لگیں۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آدمی کو میرے پاس لاؤ۔ صحابہ نے اسے تلاش کیا لیکن وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ پھر آپ دو یا تین دن ٹھہرے رہے، پھر فرمایا: (( یَاابْنَ الْخَطَّابِ! أَتَدْرِیْ مِنَ السَّائِلُ عَنْ کَذَا وَکَذَا؟)) ’’اے ابن خطاب! ایسا ایسا پوچھنے والا کون تھا؟‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ذَاکَ جِبْرِیْلَ جَائَ کُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ۔)) [2] ’’وہ جبریل تھے تم کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسلام، ایمان اور احسان کے معانی ومطالب کو سوال و جواب کے انداز میں سب سے افضل فرشتے اور افضل ترین رسول سے سیکھا۔ ۲۔ آپ کی رائے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کے موافق ہونا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، اس جماعت میں ہمارے ساتھ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھ گئے اور واپس آنے میں تاخیر کی، ہم خوف زدہ ہوئے کہ کہیں آپ کو ہماری غیر موجودگی میں کوئی نقصان نہ پہنچا دے، ہم گھبرائے، اور تلاش کے لیے
[1] عمر بن الخطاب، د/ علی الخطیب، ص: ۱۱۲