کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 105
گردن مار دوں۔‘‘ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہی ردّ عمل ان تمام لوگوں کے ساتھ ہوتا تھا جو نبوت ورسالت کے تقدس کی بے حرمتی کرنا چاہتے تھے۔ [1] جعرانہ میں سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ ، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کا عینی مشاہدہ کیا … کی رغبت پر لبیک کہا۔ صفوان بن یعلی کا بیان ہے کہ یعلی رضی اللہ عنہ کہتے تھے: ’’کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھتا جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔‘‘ [2] ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے، آپ کے اوپر کپڑے کا سائبان تھا، آپ کے ساتھ اس میں آپ کے دوسرے ساتھی بھی تھے۔ اتنے میں ایک اعرابی آیا، وہ ایک جبہ میں ملبوس تھا جو کہ خوشبو سے تر تھا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر کسی آدمی نے اس جبہ میں عمرہ کا احرام باندھا ہو جو خوشبو سے بھیگا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے یعلی رضی اللہ عنہ کو ہاتھوں سے اشارہ کیا اور کہا: آؤ، یعلی آئے، دیکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہے، کچھ دیر تک آپ سے خراٹے جیسی آواز سنائی دیتی رہی، پھر آپ سے وہ کیفیت ختم ہوگئی، اور آپ نے کہا: ((أَمَّا الطِّیْبُ الَّذِیْ بِکَ فَاغْسِلْہُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَأَمَّا الْجُبَّۃُ فَانْزِعْہَا ثُمَّ اصْنَعْ فِیْ عُمْرَتِکَ کَمَا تَصْنَعُ فِیْ حَجِّکَ۔)) [3] ’’خوشبو کو تین مرتبہ دھو دو اور جبہ اتار پھینکو، اپنے عمرہ میں ویسا ہی کرو جیسا حج میں کرتے ہو۔‘‘ اور غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے اپنا نصف مال اللہ کے راستہ میں صدقہ کردیا اور جب لوگوں کو شدت کی بھوک لگی تو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ لوگوں کے لیے برکت کی دعا کریں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک [4] میں لوگ سخت بھوک سے دوچار ہوئے، انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنی اونٹنیوں کو ذبح کردیں، انہیں کھائیں اور چربی استعمال کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا کرلو۔ عمر رضی اللہ عنہ آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! اگر انہوں نے ایسا کرلیا تو سواریوں کی کمی ہوجائے گی، بلکہ ان سے کہیے کہ وہ اپنا باقی ماندہ توشہ لے کر آپ کے پاس آئیں، چنانچہ کوئی مٹھی بھر مکئی، کوئی کھجور، کوئی روٹی کا ٹکڑا لے کر آیا، اس طرح دستر خوان پر کچھ کھانا جمع ہوگیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں برکت کی دعا فرمائی، اور فرمایا: ((خُذُوْا فِیْ أَوْعِیَتِکُمْ)) ’’اپنے برتنوں میں لے جاؤ‘‘ وہ اپنے برتنوں میں لے جانے لگے اور مجاہدین کا کوئی برتن ایسا نہ رہا جس کو انہوں نے نہ بھرا ہو۔ انہوں نے شکم سیر ہو کر کھایا اور اس سے کچھ بچ بھی گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] مکہ کے شمال مشرق میں ننانوے (۹۹) کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ [2] صحیح مسلم حدیث نمبر: ۱۰۶۳۔ صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۳۱۳۸ [3] اس کے دو مطلب بتائے گئے ہیں : (۱) ان کی تلاوت صرف زبان تک محدود ہے، دل سے اسے قبول نہیں کرتے نہ اس پر عمل کرتے ہیں ۔ (۲) نہ ان کا عمل ہی قبول ہے نہ تلاوت ہی۔ (مترجم)