کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 103
میں گزر رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے پیچھے چھپا ہوا ہے اور ڈرتے ہوئے رسوائی کی حالت میں خود کو ظاہر کرتا ہے، عمر رضی اللہ عنہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے راستہ میں جہاد اور اس کی رضامندی کی خاطر اللہ کے اس دشمن کی گردن مار دیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان کو خیر سے نوازنا چاہا اور ان کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیااور ان کی جان وخون کو محفوظ کردیا۔ [1] غزوہ حنین میں مشرکین نے اسلامی لشکر پر اچانک حملہ کردیا اور لوگ تیزی سے پیچھے کی طرف پلٹ گئے، کوئی کسی کی پروا نہ کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داہنی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ((أَیْنَ أَیُّہَا النَّاسُ؟ ہَلُمَّ إِلَیَّ ، أَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) ’’اے لوگو! تم کہاں بھاگ رہے ہو؟ میری طرف آؤ، میں اللہ کا رسول ہوں، میں عبداللہ کا بیٹا محمد ہوں۔‘‘ لیکن کسی نے آپ کی بات نہ سنی، اونٹ ایک دوسرے پر گر رہے تھے، اکثر لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ مہاجرین، انصار اور آپ کے اہل بیت کے چند لوگ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باقی رہے۔ مہاجرین میں سے ابوبکر اور عمر اور اہل بیت میں سے علی بن ابی طالب، عباس بن عبدالمطلب، ان کے لڑکے فضل بن عباس، ابوسفیان بن حارث، ان کے لڑکے، اور ربیعہ بن حارث وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ [2] اس غزوہ میں فاروقی مؤقف کو ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’غزوہ حنین کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، جب معرکہ شروع ہوا تو فتح کی پہلی بالی مسلمانوں کے حق میں آئی، میں نے دیکھا کہ ایک مشرک آدمی ایک مسلمان کو زیر کیے ہے۔ میں نے پیچھے سے اس کی گردن پر تلوار سے وار کیا، جس سے اس کا بازو کٹ گیا، وہ میری طرف پلٹا اور مجھے اتنا سخت دبوچ لیا جیسے کہ میں مرجاؤں گا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ آپ نے جواب دیا: اللہ کا یہی حکم ہے۔ پھر سب دوبارہ واپس آئے۔‘‘ [3] اللہ تعالیٰ نے اس غزوہ کی منظر کشی اس طرح کی ہے: لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (التوبۃ:۲۵)
[1] التاریخ الإسلامی: ۷/ ۱۷۶، ۱۷۷ [2] السیرۃ النبویۃ، ص: ۵۱۸، ۵۱۹، ۵۲۰