کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 101
داروں کا خیال رکھیں، میں نے اپنے دین سے ارتداد یا اسلام لانے کے بعد کفر سے رضامندی کی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَمَا إِنَّہٗ قَدْ صَدَقَکُمْ۔))اس نے تم سے سچ سچ بات بتائی۔ عمر نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس منافق کی گردن مارنے کی اجازت دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّہٗ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا ، وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّ اللّٰہُ اَطَّلَعَ عَلٰی مَنْ شَہِدَ بَدْرًا ،قَالَ: اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔))[1] ’’انہوں نے بدر میں شرکت کی ہے، تم نہیں جانتے اللہ تعالیٰ بدر میں شرکت کرنے والوں سے مطلع ہے، اور ان کے بارے میں فرمایا ہے: تم جو چاہو کرو میں نے تم کو بخش دیا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان حاطب کے بارے میں جو گفتگو ہوئی اس سے مندرجہ ذیل عبرت وموعظت کی باتیں سامنے آتی ہیں: ٭ جاسوس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے قتل کرنے کی اجازت مانگی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایسا کرنے سے منع نہیں کیا، بلکہ ان کے بدری ہونے کی وجہ سے ان پر سزا نافذ کرنے سے منع کیا۔ ٭ دین کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کی سختی: دین کے بارے میں آپ کی سختی اس وقت نمایاں ہوتی ہے جب کہ آپ نے حاطب کی گردن زدنی کی اجازت مانگی۔ ٭ گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے ایمان باطل نہیں ہوتا: حاطب رضی اللہ عنہ کا عمل یعنی جاسوسی گناہ کبیرہ تھا۔ اس کے باوجود انہیں مومن مانا گیا۔ ٭ عمر رضی اللہ عنہ نے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاطب رضی اللہ عنہ پر اصطلاحی معنوں میں نہیں بلکہ لغوی معنی میں منافقت کا حکم لگایا تھا کیونکہ نفاق کا اصطلاحی معنی ہے اسلام کو ظاہر کرنا اور کفر کو دل میں پوشیدہ رکھنا۔ عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا یہ تھا کہ حاطب کے ظاہر وباطن میں مخالفت ہے، کیونکہ انہوں نے جو خط بھیجا ہے وہ اس ایمان کے خلاف ہے جس کے راستہ میں جہاد کرنے اور قربانی دینے کے لیے نکلے ہیں۔ [2] ٭ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار سے بہت متاثر ہوئے، چنانچہ کچھ دیر پہلے سخت غصہ میں تھے اور حاطب پر سخت ترین سزا کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے تھے چند ہی لمحوں میں خشیت الٰہی سے رونے لگے، اور کہا: ’’ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ‘‘ یعنی اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ اچانک اس تبدیلی کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غصہ ہوئے تھے، لیکن جب معلوم ہوگیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی کا سبب کچھ اور ہے تو ان کے مجاہدانہ کارنامے کے احترام میں اور اپنے ساتھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن
[1] اس کی سند حسن ہے، اس کے رجال شیخین کے رجال ہیں ۔ الموسوعۃ الذہبیۃ، مسند احمد، ۱؍۳۰، حدیث: ۲۰۳۔ [2] السیرۃ النبویۃ، ابن ہشام: ۲/ ۲۶۵۔ أخبار عمر، ص: ۳۷