کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 100
(( کَلَّا إِنِّیْ رَأَیْتُہٗ فِی النَّارِ فِیْ بُرْدَۃٍ غَلَّہَا ، أَوْعَبَائَ ۃٍ۔)) ’’ہرگز نہیں، میں نے اسے چادر یا عباء کی چوری کی وجہ سے جہنم میں دیکھا ہے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: (( یَابْنَ الْخَطَّابِ! اِذْہَبْ فنَادِ فِی النَّاسِ أَنَّہٗ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا الْمُؤْمِنُوْنَ۔)) ’’اے ابن خطاب! جاؤ لوگوں میں اعلان کردو کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔‘‘ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پھر میں نکلا اور اعلان کیا: سن لو! جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔ [1] ۴: فتح مکہ اور غزوہ حنین و تبوک: جب قریش نے بدعہدی کرکے حدیبیہ کی صلح توڑ دی تو مدینہ کی طرف سے متوقع خطرات سے ڈر گئے اور ابوسفیان کو صلح کی بحالی اور مدت صلح میں اضافہ کے مقصد سے مدینہ روانہ کیا، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے کمرہ میں داخل ہوا لیکن مقصد میں کامیاب نہ ہوا، پھر وہاں سے نکلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ سے ہم کلام ہوا۔ لیکن آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بات کرنے کے لیے کہا ہے۔ آپ نے فرمایا: میں بات نہیں کروں گا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور آپ سے گفتگو کی، آپ نے کہا: کیا میں تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کر دوں؟ اللہ کی قسم، اگر میں صرف چھوٹی چیونٹیوں کو تم سے جہاد کرنے کے لیے اپنا معاون پاؤں گا تو بھی جہاد کروں گا۔ [2] چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے لیے تیاریاں مکمل کرلیں تو حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے مکہ والوں کو ایک خط لکھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کشی کی اطلاع انہیں دے دی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے اس خط کے بارے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کردیا اور آپ نے اس کوشش کو آغاز ہی میں ختم دیا۔ آپ نے علی اور مقداد رضی اللہ عنہما کو بھیجا، انہوں نے مدینہ سے بارہ میل کی دوری پر روضۂ خاخ کے پاس خط لے جانے والی عورت کو گرفتار کرلیا اور ڈرایا دھمکایا کہ اگر وہ خط نہیں دیتی تو اس کی تلاشی لیں گے، اس نے انہیں وہ خط دے دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق کے لیے حاطب رضی اللہ عنہ کو طلب کیا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ میرے بارے میں جلدی نہ کریں، میں قریش کا حلیف تھا، میں قریش میں سے نہیں ہوں اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کے وہاں (مکہ میں) رشتے دار ہیں، جس کی وجہ سے ان کے مال اور اہل وعیال محفوظ ہیں۔ لہٰذا میں نے چاہا کہ جب وہاں ان سے میرا کوئی خاندانی رشتہ نہیں تو میں اس طرح ان کو اپنا معاون بنا لوں تاکہ میرے قرابت
[1] الفاروق القائد/ شیت خطاب، ص: ۱۱۷۔ ۱۱۸