کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 49
پڑھنے کی احادیث کے درجے کی کوئی معارض و مخالف حدیث نہیں اور نہ امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کی ممانعت پر دلالت کرنے والی کوئی حدیث ہے۔[1] جب کہ اپنی چوتھی کتاب’’السعایۃ‘‘میں وہ لکھتے ہیں کہ تمام اطراف پر نظر ڈالنے کے بعد مجھ پر یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ قراء ت خلف الامام کی ممانعت بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار سے ہوتی ہے اور انہی پر ہمارے علما نے اعتماد کیا ہے اور کراہت کا فتویٰ دیا ہے،مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی با اعتماد سند کے ساتھ ممانعت ثابت نہیں ہے اور اس سلسلے میں جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ ثابت نہیں ہیں۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ سری نمازوں میں قراء ت کو جائز قرار دیتے ہیں،البتہ جہری میں ان کے نزدیک بھی منع ہے تو ان کی اس ممانعت والی رائے کو ذکر کرتے ہوئے مولانا عبدالحی نے لکھا ہے: ’’أَوَلَمْ یَعْلَمْ أَنَّ حَدِیْثَ عُبَادَۃَ صَرِیْحٌ فِيْ تَجْوِیْزِہٖ فِي الْجَہْرِیَّۃِ‘‘[2] ’’کیا انھیں معلوم نہیں کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جہری نمازوں میں بھی قراء تِ فاتحہ خلف الامام کے جواز کی صریح دلیل ہے۔‘‘ 32۔ معاصرین کبار علمائے احناف میں سے مولانا ظفر احمد عثمانی کا ایک مضمون جناب ماہر القاری رحمہ اللہ کے ماہنامہ’’فاران‘‘کراچی کے نومبر،دسمبر1960ء کے دو شماروں میں شائع ہوا تھا،اس میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
[1] بحوالہ فتاوی اولیائے کرام و فقہائے عظام(ص۴۲) نماز میں سورت فاتحہ(ص:۱۷۲)۔ [2] السعایۃ(۲؍۳۰۲۔۳۰۴) بحوالہ توضیح الکلام(۱؍۳۶۔۳۷) حاشیہ