کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 46
معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تَفْعَلُوْا إِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَاِنَّہٗ لَا صَلَاۃَ إِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ)) ’’یعنی اگرچہ تم جلدی جلدی سکتاتِ امام میں ہی پڑھتے ہو،تاہم مت پڑھا کرو۔‘‘ موصوف نے سبیل الرشاد میں الفاظِ حدیث میں سے صرف اتنے ہی الفاظ کا اردو ترجمہ کیا ہے اور بقیہ الفاظ کا ترجمہ کسی وجہ سے رہ گیا ہے،جو یوں ہے:’’تاہم مت پڑھا کرو سوائے سورت فاتحہ کے،کیوں کہ سورت فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔‘‘بہر حال آگے وہ مزید لکھتے ہیں: ’’پس جب اس(سورت فاتحہ) کو اس قدر خصوصیت باصلاۃ ہے تو اگر سکتات میں اس کو پڑھ لو تو رخصت ہے۔اور یہ قدرِ قلیل آیات ہیں۔محلِ ثنا میں ختم ہو سکتی ہیں اور خلطِ امام کی نوبت نہیں آتی۔‘‘[1] 31۔ معروف حنفی عالم علامہ عبدالحی لکھنوی فرنگی محلی کے شاگردوں نے سورت فاتحہ خلف الامام کے موضوع پر متعدد رسائل کے مجموعہ پر مشتمل مستقل ایک کتاب لکھی،جس کا نام’’امام الکلام‘‘ہے اور جب امام الکلام کو دوبارہ چھاپنے کی نوبت آئی تو مولانا عبد الحی نے غیث الغمام کے نام سے اس پر حاشیہ لکھا ہے۔یہ متن و حاشیہ امام الکلام کے نام سے مولانا لکھنوی کی تالیف کے طور پر ہی معروف ہیں۔[2]
[1] بحوالہ فتاویٰ اولیائے کرام(ص:۴۵) نماز میں سورت فاتحہ(ص:۱۶۹)،توضیح الکلام(۱؍۳۱،۳۸) [2] سیرت شبلی از سید سلیمان ندوی(ص:۱۰۱) بحوالہ توضیح الکلام(۱؍۳۷)