کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 44
کوشش کرتا ہوں،اس لیے آسان صورت یہی معلوم ہوئی کہ خود امامت کروں۔[1]
25۔ شیخ محمد عابد سندھی کبار علمائے احناف میں سے تھے،ان کی ایک تصنیف’’المواہب اللطیفۃ شرح مسند أبي حنیفۃ‘‘جو طباعت کے مراحل سے شاید اب تک نہیں گزرسکی،اس کے قلمی نسخے سے نقل کرتے ہوئے مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے’’توضیح الکلام‘‘(ج ۱ ص:۳۱) میں لکھا ہے کہ علامہ سندھی نے سری نمازوں میں فاتحہ خلف الامام پڑھنے کو’’أعدل الأقوال‘‘قرار دیا ہے کہ یہ سب سے زیادہ مبنی بر عدل وانصاف قول ہے اور اکثر متاخرین کا میلان اس سلسلے میں امام محمد رحمہ اللہ کے قول کی طرف ہے۔[2]
26۔ امام ابو حامد الغزالی رحمہ اللہ نے اپنی مشہورِ عالم کتاب’’إحیاء علوم الدین‘‘میں،جس کا اردو ترجمہ بھی چھپ چکا ہے،مقتدی کی نسبت سورت فاتحہ کے تعلق سے لکھا ہے:
’’وَیَقْرَأُ الْمَأْمُوْمُ الْفَاتِحَۃَ‘‘[3]
’’مقتدی امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھے۔‘‘
27۔ ’’تقصار جیود الأحرار‘‘(ص:۱۱۳) میں شاہ شمس الدین رحمہ اللہ کا معمول یہ نقل کیا گیا ہے کہ وہ فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے۔[4]
28۔ سید عبد الحی ندوی رحمہ اللہ نے’’نزہۃ الخواطر‘‘(۸؍۲۷۲) پر ایک حنفی عالم شیخ
[1] تاریخِ دعوت وعزیمت(۴؍۱۷۴)،مطبوع لکھنؤ بضمن عادات ومعمولات توضیح الکلام(۱؍۳۲)۔
[2] حوالہ مذکورہ۔
[3] إحیاء العلوم(ص:۱۳۹)،فتاویٰ اولیائے کرام(ص۴۳)۔
[4] فتاوی اولیائے کرام(ص:۴۳)۔