کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 43
’’اس احتمال کی بنا پر کہ ممکن ہے اس مسئلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک صحیح ہو۔(لہٰذا احتیاطاً امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھ لینا مستحسن و بہتر ہے)‘‘ 23۔ ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں ابن حبان سے نقل کرتے ہوئے ابن ہمام نے لکھا ہے: ’’وَأَہْلُ الْکُوْفَۃِ إِنَّمَا اخْتَارُوْا تَرْکَ القراءة خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَطْ،لَا أَنَّہُمْ لَا یُجِیْزُوْنَہَا‘‘[1] ’’اہلِ کوفہ یعنی فقہائے احناف نے فاتحہ نہ پڑھنے کو اختیار کیا ہے۔یہ تو نہیں کہ وہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کو جائز ہی نہ سمجھتے ہوں۔‘‘ 24۔ امامِ ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ کا معمول بیان کرتے ہوئے’’زبدۃ المقامات‘‘(ص:۲۰۹) پر مصنف کتاب خواجہ محمد ہاشم نے لکھا ہے کہ وہ بھی امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھا کرتے تھے اور اس کو مستحسن سمجھتے تھے:’’فاتحہ خلف الامام ہمی خواندند و آں را مستحسن ہمی شمردند۔‘‘[2] اس کے علاوہ مولانا بدر الدین نے’’حضرات القدس‘‘میں لکھا ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ اکثر خود امامت فرماتے تھے اور ایک مرتبہ اس کی حکمت یہ ارشاد فرمائی:حضرات شافعیہ و مالکیہ کے یہاں قراء ت فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی،اس لیے وہ امام کے پیچھے بھی فاتحہ پڑھتے ہیں اور بہت سی احادیثِ صریحہ بھی اس پر دلالت کرتی ہیں،لیکن ہمارے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں مقتدی کے لیے فاتحہ پڑھنا جائز نہیں اور جمہور فقہائے حنیفہ کا بھی یہی مذہب ہے،چونکہ میں مذاہب کے جمع کرنے کی
[1] فتح القدیر(ص:۱۳۷)،فتاویٰ اولیائے کرام(ص:۴۲۔۴۳)،تحقیق الکلام(ص:۵)۔ [2] فتاوی اولیائے کرام(ص:۴۳)۔توضیح الکلام(۱؍۳۲)۔