کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 42
کہا کرتے تھے کہ شیخ حسن عجمی ایک حنفی عالم تھے،لیکن سفر میں نمازِ ظہر و عصر اور مغرب و عشا جمع کرکے پڑھتے تھے:
’’و درحالت اقتداء سورت فاتحہ میخوانند‘‘[1]
’’اور بحالتِ اقتدا سورت فاتحہ پڑھتے تھے۔‘‘
20۔ مرزا حسن علی لکھنوی بھی حنفی تھے اور وہ نہ صرف یہ کہ بحالتِ اقتدا سورت فاتحہ پڑھتے تھے،بلکہ’’مسک الختام شرح بلوغ المرام‘‘میں علامہ صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا تھا جس میں قراء تِ فاتحہ خلف الامام کے مسئلے کو کتبِ فقہ حنفیہ سے ثابت کیا تھا۔[2]
21۔ فقہ حنفیہ کی ایک معتبر ترین اور معروف و متداول کتاب ہدایہ میں ہے:
’’وَیُسْتَحْسَنُ عَلیٰ سَبِیْلِ الْاِحْتِیَاطِ فِیْمَا یُرْوَیٰ عَنْ مُحَمَّدٍ‘‘[3]
’’امام محمد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ بر سبیلِ احتیاط قراء ت کرلینا مستحسن ہے۔‘‘
22۔ مولانا عبد الحی رحمہ اللہ حنفی لکھنوی فرنگی محلی نے ہدایہ پر جو حاشیہ لکھا ہے،اس میں امام محمد سے مروی اس قول کی توجیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’لِاحْتِمَالٍ أَنْ یَّکُوْنَ الْوَاقِعُ مَا قَالَہٗ الشَّافِعِيُّ‘‘[4]
[1] فتاویٰ اولیائے کرام(ص:۲۹)،نماز میں سورت فاتحہ(ص:۱۵۷)،توضیح الکلام(۱؍۱۳۱)
[2] مسک الختام(۱؍۲۱۹)
[3] ہدایہ مع فتح القدیر(۱؍۲۴۱)،ہدایہ(۱؍۱۰۱)،فتاوی اولیائے کرام(ص:۲۱) نماز میں سورت فاتحہ(ص:۱۴۹)،التوضیح(۱؍۵۸)۔
[4] أیضاً۔