کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 41
’’أَنَا أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ وَالنَّاسُ یَقْرَؤُوْنَ،اِلاَّ قَوْمٌ مِنَ الْکُوْفِیِّیْنْ،وَأَرْیٰ أَنَّ مَنْ لَّمْ یَقْرَأْ صَلَاتُہٗ جَائِزَۃٌ‘‘[1]
’’میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھتا ہوں اور لوگ بھی پڑھتے ہیں سوائے فقہائے کوفہ کی ایک جماعت کے،اور میرے نزدیک فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز بھی ہو جاتی ہے۔‘‘
18۔ شیخ عبد الرحیم رحمہ اللہ حنفی مسلک کے ایک مجتہد گزرے ہیں،انھوں نے بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قدیم قول کو چھوڑ کر ان کے قولِ جدید پر عمل کرتے ہوئے سورت فاتحہ پڑھنا شروع کردیا تھا اور وہ اسی کا فتویٰ بھی دیتے تھے۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی طرح ہی شیخ عبد الرحیم نے بھی کہا تھا:
’’لَوْ کَانَ فِيْ فَمِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ جَمْرۃٌ أَحَبَّ اِلَيَّ مِنْ أَنْ یُّقَالَ:لَا صَلَاۃ َلَکَ‘‘[2]
’’اگر قیامت کے دن میرے منہ میں انگارا ہو تو بھی یہ بات میرے لیے اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ مجھے کہہ دیا جا ئے کہ تیری نماز نہیں ہوئی۔‘‘
19۔ ایسے ہی’’أنفاس العارفین‘‘(ص:۱۸۹،طبع دوم) اور’’مسک الختام‘‘(۱/۱۳۹) نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب’’إنسان العین في ذکر مشائخ الحرمین‘‘سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے استاذ ابو طاہر مدنی کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ
[1] ترمذی مع التحفۃ(۲؍۲۳۸)،فتاویٰ علمائے حدیث(۳؍۱۲۹)،فتاویٰ اولیائے کرام(ص:۲۳)،الترمذي(۲؍۲۳۸) تحقیق الکلام(ص:۶)
[2] إمام الکلام(ص:۲۰) ومسک الختام(۱؍۲۱۹) فتاویٰ اولیائے کرام(ص:۲۵،۲۶) نماز میں سورت فاتحہ(ص:۱۵۱،۱۵۲) فتاویٰ علمائے حدیث(۳؍۱۳۰)