کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 40
’’تنویر العینین‘‘ (ص:۲۹ مطبوعہ لاہور) میں لکھا ہے:
’’لَکِنْ یَظْہَرُ بَعْدَ التَّأَمُّلِ فِيْ الدَّلَائِلِ أَنَّ القراءة أَوْلَیٰ مِنْ تَرْکِہَا‘‘[1]
’’لیکن دلائل پر تامّل اور غور و فکر کرنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ قراء ت کرنا ترک کرنے سے اولیٰ ہے۔‘‘
16۔ مولانا خرم علی بلہوری رحمہ اللہ بھی علمائے احناف میں سے گزرے ہیں اور ان کے بھی سورت فاتحہ خلف الامام کے قائلین سے ہونے کا پتا اس بات سے چلتا ہے کہ جناب سید عبدالحی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’نزھۃ الخواطر‘‘(ج ۷،ص:۱۵۸) میں ان کے بارے میں لکھا ہے:
’’وَلَہٗ رِسَالَۃٌ فِیْ قِرَائَۃِ الْفَاتِحَۃِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيْ الصَّلاَۃِ‘‘[2]
’’نماز میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کے بارے میں ان کا ایک رسالہ ہے۔‘‘
ان تمام نقول و اقتباسات سے معلوم ہوا کہ یہ سب علمائے احناف امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے،کچھ مطلقاً،کچھ سری نمازوں میں اور کچھ سکتاتِ امام میں۔
17۔ انہی ائمہ و علمائے احناف میں سے ایک امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ بھی ہیں،جو بلا واسطہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد اور حاضر جواب عالم تھے۔ان کے بارے میں امام ترمذی نے اپنی سنن میں نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:
[1] فتاویٰ علمائے حدیث(۳؍۱۳۰،۱۳۵) فتاویٰ اولیائے کرام(ص:۳۸) التوضیح(۱؍۳۵) نماز میں سورت فاتحہ(ص:۱۶۶) نزھۃ الخواطر(۷؍۵۸)۔
[2] فتاویٰ علمائے حدیث(۳؍۱۳۵) النزھۃ(۷؍۱۵۸) نمازمیں سورت فاتحہ(ص:۱۶۶)۔