کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 39
کا شمار بھی ان علمائے احناف ہی میں سے ہوتا ہے،جو امام کے پیچھے مقتدی کے لیے بھی سورت فاتحہ پڑھنے کی رائے رکھتے تھے،چنانچہ ان کا ایک فتویٰ ہے،جسے سب سے پہلے 1226ھ میں علمائے کلکتہ نے شائع کیا تھا اور پھر متعدد بار شائع ہونے کے بعد نایاب ہو گیا تو مولانا محمد غلام کبریا خان کے شائع کردہ فتویٰ مطبوعہ 1926ء سے فوٹو لے کر 1374ھ میں لاہور سے شیخ الحدیث مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ نے اپنے مکتبہ سلفیہ کی طرف سے شائع کیا تھا،جسے بعد میں شارجہ کے ایک مخیر الحاج محمد سعید باقرین رحمہ اللہ نے بھی شائع کرواکر متحدہ عرب امارات میں تقسیم کیا تھا جو اس مجموعہ فتاویٰ کے ضمن میں ہے،جس کا عنوان ہے:’’فتاویٰ اولیائے کرام و فقہائے عظام دربارہ قراء تِ سورت فاتحہ خلف الامام۔‘‘
اس فارسی تفصیلی فتوے کے ضمن میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مقتدی کے لیے سورت فاتحہ پڑھنا ممنوع ہے اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک سری نمازوں میں مقتدی کے لیے سورت فاتحہ جائز بلکہ اولیٰ ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک بغیر فاتحہ نمازنہیں ہوتی اور اس فقیر کے نزدیک امام شافعی رحمہ اللہ کا قول راجح اور اولیٰ ہے۔[1]
15۔ خاندانِ ولی اللہی رحمہ اللہ کے گلِ سرسبد حضرت شاہ اسماعیل شہید ابن شاہ عبد الغنی ابن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہم اللہ بھی نماز با جماعت کی صورت میں مقتدی کے لیے سورت فاتحہ پڑھنے کے قائلین میں سے ہیں۔غرض شاہ صاحب نے
[1] فتاویٰ مذکورہ،طبع لاہور و شارجہ(ص:۳۲۔۳۸) تحقیق الکلام(ص:۹) توضیح الکلام(۱؍۳۴) فتاوی علمائے حدیث(۳؍۱۲۶،۱۳۴) نماز میں سورت فاتحہ(ص:۱۶۱،۱۶۶)