کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 37
کی خدمت میں حاضر ہو تو ایسے موقع پر مناسب اور ادب یہ ہے کہ سب کی طرف سے ایک ہی شخص تمام وفد کے کام پیش کردے نہ کہ ہر شخص بولنا شروع کردے۔‘‘
شاہ عبدالرحیم صاحب نے(اس عقلی دلیل کا نقلی و شرعی رد کرتے ہوئے) فرمایا:’’یہ قیاس مع الفارق ہے(جو درست نہیں،کیوں کہ ان دونوں میں فرق ہے) نماز تو اللہ تعالیٰ سے مناجات اور راز و نیاز ہے اور دعا و عاجزی کے ذریعے اصلاح و تہذیبِ نفس کا ایک ذریعہ ہے،چنانچہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِأُمِّ الْکِتَابِ)) دلالت کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات تو اس حد تک سننے والی ہے کہ اگر سارا جہان ایک میدان میں(ایک ہی وقت میں) اپنی مختلف زبانوں میں اپنی معروضات پیش کرے تو اللہ تعالیٰ سب کی معروضات کو سن لے گا اور کسی کی بھی عرض کسی دوسرے کی عرض میں خلل پیدا نہیں کرسکے گی۔‘‘[1]
13۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے بارے میں علامہ عبد الحی حنفی نے’’غیث الغمام حاشیہ إمام الکلام‘‘(ص:۲۱۵) میں لکھا ہے کہ ان کے نزدیک مذہبِ مختار یہ تھا کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی سورہ فاتحہ پڑھے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’وہو مختار صاحب حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘[2]
’’صاحبِ حجۃ اللہ البالغہ کا مذہبِ مختار یہی(قراء ت فاتحہ خلف الامام) ہے۔‘‘
خود شاہ ولی اللہ نے اپنی مشہورِ عالم کتاب’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘(۲؍۴) میں’’الأمور التي لا بد منھا في الصلاۃ‘‘،’’یعنی ان امور کا تذکرہ جن کے بغیر
[1] حوالہ جات سابقہ ایضاً۔
[2] التوضیح(۱؍۳۳)