کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 35
10۔ حضرت شیخ حسین بن احمد بخاری مخدومِ جہاں جہاں گشت جو ایک معروف بزرگ گزرے ہیں،ان کا فتویٰ بھی یہی تھا کہ امام کہ پیچھے سورت فاتحہ پڑھی جائے،چنانچہ سید عبدالحی رحمہ اللہ صاحب اپنی کتاب’’نزہۃ الخواطر‘‘(۲؍۲۹) میں لکھتے ہیں:
’’کَانَ یُجَوِّزُ القراءة خَلْفَ الْاِمَامِ،کَمَا فِيْ جَامِعِ الْعُلُوْمِ‘‘[1]
’’جامع العلوم کے مطابق وہ امام کے پیچھے قراء تِ فاتحہ کو جائز کہا کرتے تھے۔‘‘
’’الدر المنظوم‘‘جو حضرت مخدوم کے حالات و سوانح پر مشتمل کتاب ہے،اس میں حضرت مخدوم سے منقول ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ نماز میں فاتحہ امام اور مقتدی کے لیے فرض ہے اور ہمارے نزدیک ایک روایت یہ ہے کہ فاتحہ خلف الامام مستحسن یعنی اچھی ہے،جیسا کہ’’المتفق‘‘نامی کتاب میں مذکور ہے اور ہر وہ چیز جس کا وجوب مختلف فیہ ہو،اس کا کرنا افضل ہے۔[2]
11۔ حضرت والا جاہ علامہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ والیِ ریاستِ بھوپال،شیخ شمس الدین مرزا مظہر جان جاناں رحمہ اللہ کے متعلق’’أبجد العلوم(ص:۹۰۰) اور’’مسک الختام شرح بلوغ المرام‘‘(۱؍۲۱۹) میں لکھتے ہیں:
’’وَیُقَوِّيْ قِرَائَۃَ الْفَاتِحَۃِ خَلْفَ الْإِمَامِ‘‘[3]
’’وہ قراء تِ فاتحہ خلف الامام والے مسلک کو قوی قرار دیا کرتے تھے۔‘‘
ایسے ہی’’تقصار جیود الأحرار‘‘(ص:۱۱۳) میں لکھا ہے:
[1] بحوالہ جات سابقہ۔الدر المنظوم(۲/۶۶۶،۶۶۷) نماز میں سورت فاتحہ از مولانا کرم الدین سلفی(ص:۱۵۵)
[2] الدر المنظوم(۲/۶۶۶،۶۶۷) نماز میں سورت فاتحہ از مولانا کرم الدین سلفی(ص:۱۵۵)
[3] نماز میں سورت فاتحہ(ص:۱۵۶) توضیح الکلام(۱؍۳۱) فتاوی اولیائے کرام(ص:۸۲)