کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 30
ط مکتبہ کریمي،بمبئی) میں لکھتے ہیں کہ صوفیہ کا گروہ اور حنفیہ کے مشایخ مقتدی کے لیے قراء تِ فاتحہ کو اچھا سمجھتے تھے،جیسا کہ امام محمد رحمہ اللہ(امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردِ رشید) بھی ان سے مروی روایت کے مطابق احتیاطاً مقتدی کے سورت فاتحہ پڑھ لینے کے استحسان اور اچھا ہونے ہی کے قائل تھے۔[1]
3۔ علمائے احناف ہی میں سے علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ عمدۃ الرعایۃ حاشیۃ شرح الوقایۃ(۱؍۱۵۳) میں لکھتے ہیں کہ امام محمد رحمہ اللہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ سری و بلا آواز قراء ت والی نمازوں میں مقتدی کے سورت فاتحہ پڑھ لینے کو اچھا خیال کرتے تھے اور ایسی ہی روایت خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں بھی ملتی ہے،جیسا کہ ہدایۃ اور شرح مختصر قدوري وغیرہ کتبِ فقہ حنفیہ میں صراحت ملتی ہے اور یہی ہمارے کثیر مشایخِ احناف کا اختیار ہے۔[2]
4۔ یہی رائے امام محمد رحمہ اللہ کے کبار تلامذہ میں سے امام ابو حفص کبیر اور شیخ تسلیم نظام الدین البیرونی کی بھی ہے،جیسا کہ’’امام الکلام‘‘میں علامہ عبد الحی حنفی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ شیخ تسلیم فرمایا کرتے تھے:
’’لَوْ کَانَ فِيْ فَمِيْ جَمْرَۃٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَحَبُّ إِلَيَّمِنْ أَنْ یُّقَالَ:لَا صَلَاۃَ لَکَ‘‘[3]
[1] فتاوی علمائے حدیث(۳/۱۳۰)،التوضیح(۱/۲۷) نماز میں سورت فاتحہ(ص:۱۵۰،۱۵۱)
[2] فتاوی علمائے حدیث(۳/۱۲۹) فتاوی اولیائے کرام وفقہائے عظام(ص:۲۲) نماز میں سورت فاتحہ از مولانا کرم الدین سلفی(ص:۱۴۹،۱۵۰) تحقیق الکلام(ص:۷)،تحفۃ الأحوذي(۳/۲۳۰)،إمام الکلام(ص:۴۷)،توضیح الکلام(۱/۲۷)۔
[3] مسک الختام(۱؍۲۱۹) وإمام الکلام(ص:۳۸)،بحوالہ توضیح الکلام(۱؍۲۷) فتاوی اولیائے کرام و فقہائے عظام(ص:۲۴) تحقیق الکلام(ص:۸)،نماز میں سورت فاتحہ از مولانا کرم الدین سلفی(ص:۱۵۱)